Inquilab Logo Happiest Places to Work

امریکہ کی ظالمانہ امیگریشن پالیسی پر’’مجسمہ آزادی‘‘شرمندہ، فرانس میں منہ چھپائے مجسمہ کی نقاب کشائی

Updated: July 11, 2025, 8:57 PM IST | Paris

ڈچ آرٹسٹ جوڈتھ ڈی لیو کا بنایا ہوا یہ میورل، جس کا نام "مجسمہ آزادی کا خاموش احتجاج" ہے، ۴ جولائی کو روبیکس شہر میں منظر عام پر آیا جب صدر ٹرمپ اپنے ”بگ، بیوٹی فل بل“ پر دستخط کرنے کی تیاری کر رہے تھے۔

Judith de Leeuw`s Work. Photo: INN
جوڈیتھ ڈی لیو کے ذریعے بنایا گیا میورل۔ تصویر: آئی این این

امریکہ کے یومِ آزادی کے موقع پر سنیچر کو شمالی فرانس کی ایک عمارت پر مجسمہ آزادی کی شرمندگی سے چہرہ چھپاتے ہوئے ایک میورل (دیواری تصویر) نصب کیا گیا جس کی تصویریں تیزی سے سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئیں۔ ڈچ اسٹریٹ آرٹسٹ جوڈتھ ڈی لیو کا بنایا ہوا یہ میورل، جس کا نام "مجسمہ آزادی کا خاموش احتجاج" ہے، ۴ جولائی کو فرانس کے روبیکس شہر میں اس وقت منظر عام پر آیا جب صدر ٹرمپ اپنے نام نہاد ”بگ، بیوٹی فل بل“ پر دستخط کرنے کی تیاری کر رہے تھے، جس میں میڈیکیڈ جیسے پروگراموں میں بڑے پیمانے پر کٹوتی شامل ہے۔

ای میل کے ذریعے رابطہ کرنے پر، ڈی لیو نے بتایا کہ یہ میورل امریکہ کی ظالمانہ امیگریشن پالیسیوں اور یورپی یونین کے ساتھ اس کی ”نازک دوستی“ کے تئیں ان کی تشویش کی عکاسی کرتا ہے، جس کی جھلک مجسمے میں بھی نظر آتی ہے۔ ۱۸۸۵ء میں فرانس سے نیویارک پہنچنے والا مجسمہ آزادی دو دہائیوں قبل امریکی اعلانِ آزادی کی آئندہ سو سالہ سالگرہ کو دوستی کے اظہار کے طور پر بنایا گیا تھا۔ فرانس نے عوامی فنڈز سے اس یادگار کا آرڈر دیا تھا اور چندہ جمع کرنے کی ایک کامیاب مہم کے بعد امریکہ میں اس کا چبوترہ تعمیر کیا گیا تھا۔ دستاویز پر دستخط کی ۲۵۰ ویں سالگرہ کے قریب آتے ہوئے ڈی لیو کا میورل یہ سوال اٹھاتا ہے کہ کیا اس یادگار میں شامل آزادیاں آج بھی موجود ہیں؟

یہ بھی پڑھئے: ۵۰؍فیصد ٹیریف پربرازیل برہم، امریکہ کو جوابی اقدام کا انتباہ

ڈی لیو نے ڈچ میڈیا کی ایک رپورٹ کا ذکر کیا جس میں ایک تارک وطن کو ”امریکہ میں اس کے گھر سے زبردستی نکالا جا رہا تھا جبکہ اس کا بچہ دروازے پر جم کر کھڑا تھا۔“ فنکار نے کہا کہ ان کا رجحان ایک جوابی آرٹ ورک بنانے کا تھا۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس منظر نے مجھے جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ میں اس طرح کے ناانصافی کو جواب دیئے بغیر نہیں دیکھ سکتی۔ ڈی لیو نے بتایا کہ یہ کام مستقل ہے اور اسے روبیکس میں یو آر بی ایکس فیسٹیول اور میورل آرٹسٹ کلیکٹو کلیکٹف رینارٹ کے تعاون سے بنایا گیا تھا۔ رواں سال کے شروع میں، وائٹ ہاؤس نے سائنسی تحقیق میں ٹرمپ انتظامیہ کی پسپائی کے جواب میں ایک فرانسیسی سیاست دان کی مجسمہ آزادی کی واپسی کی علامتی مطالبے کو مسترد کر دیا تھا۔

ڈی لیو کا انسٹاگرام اکاؤنٹ بند ہونے کا خدشہ

ڈی لیو نے بتایا کہ گزشتہ سنیچر کو میورل کی تصویریں وائرل ہونے کے بعد، انہیں ایک نوٹیفکیشن موصول ہوا ہے کہ ان کا انسٹاگرام اکاؤنٹ، جہاں انہوں نے سب سے پہلے میورل کی تصاویر پوسٹ کی تھیں، بند کیا جاسکتا ہے۔ اگرچہ میٹا نے ان کے اکاؤنٹ کے جائزے کی کوئی وجہ نہیں بتائی، ڈی لیو کو شبہ ہے کہ اس کا تعلق میورل کے سیاسی اثرات سے ہو سکتا ہے۔ فنکار نے کہا کہ میں صرف قیاس ہی لگا سکتی ہوں، لیکن میں سمجھتی ہوں کہ جب کوئی فنکار ۳۵ ملین لوگوں تک پہنچ جاتا ہے تو اسے خاموش کرنے کی کوشش کرنا دلچسپ ہو سکتا ہے۔

یہ بھی پڑھئے: لیسوتھو میں امریکی ٹیرف سے بیروزگاری میں اضافہ، ہنگامی صورتحال کا اعلان

سوشل میڈیا پر ٹرولنگ

سوشل میڈیا پر، کچھ صارفین نے اس میورل کا موازنہ برطانیہ کے پنک آرٹسٹ گی واؤچر کی تخلیق "اوہ امریکہ" (۱۹۸۹ء) سے کیا جو ۲۰۱۶ء میں ٹرمپ کے پہلے انتخاب کے بعد بڑے پیمانے پر دوبارہ گردش میں آئی تھی۔ واؤچر کی لیڈی لبرٹی بھی شرمندگی کے اشارے میں اپنے ہاتھ اپنے چہرے پر رکھے ہوئے ہے لیکن ڈی لیو کے مجسمے سے تھوڑے مختلف زاویے پر۔ کچھ صارفین نے ڈی لیو پر واؤچر کی نقل کرنے کا الزام لگایا۔ ڈی لیو نے بتایا کہ وہ واؤچر کے کام سے واقف نہیں تھیں اور کہا کہ مماثلتیں محض اتفاق تھیں۔

فنکار کو ٹرمپ کے حامیوں کی طرف سے ٹرولنگ کا سامنا بھی کرنا پڑ رہا ہے جبکہ قدامت پسند انفلوئنسرز نے اس کام کو پلیٹ فارمز پر بے عزتی قرار دیا۔ لیکن ڈی لیو کا کہنا ہے کہ انہوں نے جو کیا، وہ اس پر قائم ہیں۔ ایک ایسی دنیا میں جو غیر منصفانہ محسوس ہوتی ہے، ان کا ماننا ہے کہ سرگرمی کوئی انتخاب نہیں، بلکہ ایک فرض ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK