Inquilab Logo Happiest Places to Work

پراڈا اور کولہاپوری چپلوں کا تنازع: عالمی سطح پر چپلوں کی فروخت میں زبردست اضافہ

Updated: July 03, 2025, 6:01 PM IST | New Delhi

معروف اطالوی برانڈ پراڈا کی جانب سے ہندوستانی روایتی کولہاپوری چپل جیسے ڈیزائن پیش کرنے پر پیدا ہونے والے تنازع نے ایک زوال پذیر ہنر مندی کو نئی عالمی توجہ دلا دی ہے۔ اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ہندوستانی کاریگر اور کاروباری افراد کولہاپوری چپل کی فروخت اور شناخت کو عالمی سطح پر اجاگر کرنے میں مصروف ہیں۔

Kolhapuri Chappal. Photo: INN.
کولہاپوری چپل۔ تصویر: آئی این این۔

ہندوستانی جوتے فروش اور دستکار ایک بار پھر کولہاپوری چپل کی مقبولیت بڑھانے کیلئے قوم پرستی سے جڑی جذباتی لہر سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ یہ موقع انہیں اُس وقت ملا جب معروف اطالوی فیشن برانڈ پراڈا نے میلانو فیشن شو میں ایسی سینڈل پیش کیں جن کے ڈیزائن کولہاپوری چپلوں سے مشابہ تھے لیکن ابتدائی طور پر ان کے ماخذ کا کوئی ذکر نہیں کیا گیا۔ بارہویں صدی سے تعلق رکھنے والی اس روایتی چپل کی گونج اب عالمی سطح پر سنائی دے رہی ہے۔ جیسے ہی فیشن شو کی تصاویر وائرل ہوئیں، ہندوستانی دستکاروں نے شدید احتجاج کیا جس کے بعد پراڈا کو اعتراف کرنا پڑا کہ اس کے نئے’’اوپن ٹو‘‘ جوتے قدیم ہندوستانی ڈیزائنز سے متاثر ہیں۔ 
ای کامرس ویب سائٹ شاپ کوپ (Shopkop) کے بانی راہل پراسو کامبلے نے پراڈا کو ایک کھلا خط لکھا جس میں انہوں نے کہا کہ کولہاپوری چپل’’روایات میں رچی بسی‘‘ ہوتی ہے۔ اس خط کو سوشل میڈیا پر ۳۶؍ ہزار مرتبہ شیئر کیا گیا۔ ۳۳؍ سالہ کامبلے نے کہا:’’میں نے اس تنازع کو کولہاپوری چپل کو فروغ دینے کے ایک موقع کے طور پر دیکھا۔ ‘‘ان کے مطابق، گزشتہ تین دنوں میں مقامی کاریگروں سے حاصل کی گئی چپلوں کی فروخت۵۰؍ ہزار روپے (۵۸۴؍ ڈالر) تک پہنچ گئی جو معمول سے پانچ گنا زیادہ ہے۔ سوشل میڈیا پر اس حوالے سے طنزیہ میمز، تنقید اور بحث جاری ہے، جبکہ سیاستدانوں، کاریگروں اور تجارتی تنظیموں نے ہندوستانی ورثے کو اس کا جائز کریڈٹ دینے کا مطالبہ کیا ہے۔ 

یہ بھی پڑھئے: نجی سرمایہ کاری میں زبردست گراوٹ

پراڈا نے منگل کو رائٹرز کو ایک بیان میں کہا کہ وہ کاریگروں کے ساتھ آئندہ ملاقاتوں کا انتظام کرے گی۔ اگر وہ ان سینڈلوں کو تجارتی سطح پر فروخت کرتی ہے تو ہندوستان میں مقامی صنعت کاروں کے ساتھ مل کر ان کی تیاری کرے گی۔ 
اشتہارات اور رعایتیں 
ہندوستانی کی لگژری مارکیٹ چھوٹی مگر تیزی سے ترقی کر رہی ہے، جہاں امراء مہنگی گاڑیاں اور قیمتی گھڑیاں خریدتے ہیں۔ پراڈا کی ہندوستان میں کوئی ریٹیل شاخ نہیں ہے، اور اس کےچمڑے کے سینڈل عام طور پر۸۴۴؍ ڈالرسے شروع ہوتے ہیں، جبکہ کولہاپوری چپل کی قیمت۱۲؍ ڈالر سے بھی کم ہو سکتی ہے۔ اب جبکہ پراڈا کا نام کولہاپوری چپل کے ساتھ جوڑا جا رہا ہے، ہندوستان کے تقریباً ۷؍ ہزار کاریگر اس موقع سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ ممبئی کی کمپنی ایرا سولز (Ira Soles) نے فیس بک اور انسٹاگرام پر اشتہارات شائع کئے جن میں لکھا گیا:’’ہمارے ۳۲؍ ڈالر کے `ٹین ہینڈ کرافٹڈ کولہاپوری نے پراڈا کے ریمپ پر چہل قدمی کی ... محدود اسٹاک۔ عالمی توجہ۔ وہ خریدیں جسے دنیا سراہ رہی ہے!‘‘اسی طرح ای-کامرس ویب سائٹ نیرا (Niira) نے اپنی کولہاپوری چپلوں پر۵۰؍ فیصد تک رعایت دینا شروع کی ہے۔ کمپنی کے بانی نشانٹ راؤت کے مطابق، وہ ۱۸؍ ڈالر والی چپل جو پراڈا کے ڈیزائن سے مشابہ ہیں، ان کی فروخت تین گنا بڑھ چکی ہے۔ انہوں نے کہا:’’ایک ہندوستانی کولہاپوری برانڈ بھی برکن اسٹاک جتنا بڑا کیوں نہیں بن سکتا؟‘‘

یہ بھی پڑھئے: ’’عوام مہنگائی اور قرض تلے دبے ہوئے ہیں‘‘

کولہاپوری چپل، جنہیں ’چپل‘ بھی کہا جاتا ہے، چھوٹے کارخانوں میں ہاتھ سے بنائی جاتی ہیں اور اکثر ہندوستانی لباس کے ساتھ پہنی جاتی ہیں۔ ان جیسے ڈیزائن ہندوستان میں باٹا اور میٹرو برانڈز کی بڑی دکانوں کے علاوہ امیزون فلپ کارٹ پر بھی فروخت ہوتے ہیں۔ ۲۰۲۱ء میں ہندوستانی حکومت نے کہا تھا کہ کولہاپوری چپل سالانہ ایک ارب ڈالر کی برآمدات حاصل کر سکتی ہے۔ اگرچہ تازہ اعداد و شمار دستیاب نہیں، لیکن کاریگر کہتے ہیں کہ زیادہ جدید اور فیشن ایبل جوتوں کے باعث ان کی صنعت تنزلی کا شکار ہے۔ 
پھر بھی، پراڈا تنازع ایک مرتی ہوئی صنعت میں نئی جان ڈال رہا ہے۔ 
مہاراشٹر کی مرکزی انڈسٹری لابی کے صدر للت گاندھی کا کہنا ہے:’’یہ ایک مرتی ہوئی فنکاری ہے، لیکن پراڈا جیسے ادارے کے ساتھ شراکت داری اس میں نئی روح پھونک سکتی ہے۔ ‘‘انہوں نے بتایا کہ وہ پراڈا کے ساتھ مشترکہ برانڈنگ کے تحت ایک محدود ایڈیشن چپل تیار کرنے کیلئے بات چیت کر رہے ہیں۔ کولہاپور کے کاریگر اشوک دویفودے، جن کی عمر ۵۰؍برس ہے، روزانہ۹؍ گھنٹے ہاتھ سے چپل سی کر محض۴۰۰؍ روپے (۵؍ ڈالر ) میں بیچتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے:’’اگر پراڈا جیسے بڑے برانڈز آ جائیں تو ہم جیسے کاریگروں کو بھی اچھے دام مل سکتے ہیں۔ ‘‘

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK