آگرہ، یوپی میں اودیش رانا نامی دولہے نے ۳۱؍ لاکھ روپے جہیز لینے سے انکار کر دیا اور شادی کے موقع پر صرف ایک روپیہ بطور شگون قبول کیا۔ دولہے نے کہا کہ ’’میں یہ رقم نہیں لے سکتا۔ یہ آپ کی محنت کی کمائی ہے۔‘‘
EPAPER
Updated: November 28, 2025, 10:10 PM IST | Agra
آگرہ، یوپی میں اودیش رانا نامی دولہے نے ۳۱؍ لاکھ روپے جہیز لینے سے انکار کر دیا اور شادی کے موقع پر صرف ایک روپیہ بطور شگون قبول کیا۔ دولہے نے کہا کہ ’’میں یہ رقم نہیں لے سکتا۔ یہ آپ کی محنت کی کمائی ہے۔‘‘
اتوار ۲۲؍ نومبر ۲۰۲۵ء کی شادی کی ایک تقریب کے دوران ایک غریب دلہن اور اس کے خاندان کیلئے محبت، عزت اور وقار کی نئی مثال اس وقت قائم ہوئی جب ۲۶؍ سالہ دولہا اودیش رانا نے ۳۱؍ لاکھ روپے کا جہیز ہاتھ جوڑ کر واپس کر دیا اور صرف ایک روپیہ بطور شگون قبول کیا۔ ۲۴؍ سالہ دلہن ادیتی سنگھ کے والد کووِڈ کے دوران فوت ہو چکے ہیں۔ شادی کی رسم ’’تلک‘‘ کے دوران اُن کے اہلِ خانہ نے مہمانوں کی موجودگی میں ایک تھال میں ۳۱؍ لاکھ روپے نقد ادا کرنے کیلئے پیش کئے تھے مگر ان کی یہ پیشکش دولہے کیلئے نا قابل قبول تھی۔ جب پلیٹ سامنے آئی تو دولہا نے ہاتھ جوڑ کر بار بار عرض کیا کہ ’’مَیں اسے نہیں لے سکتا، یہ رقم دلہن کے والد کی محنت کی کمائی ہے، میرا کوئی حق نہیں کہ اسے قبول کروں۔‘‘
یہ بھی پڑھئے: آسام میں تعدد ازواج پر مکمل پابندی
ابتداء میں مہمان خاموش تھے، مگر پھر تالیاں بج اٹھیں، دلہن کے اہلِ خانہ نے گہرے تشکر کا اظہار کیا، اور دولہے کے والدین بھی اس فیصلے کی کھل کر حمایت کرنے لگے۔ شادی کی باقی رسمیں ، کنیادان اور دیگر ، پورے وقار اور احترام کے ساتھ انجام پائیں، اور دولہا اور دلہن باعزت زندگی کی نئی شروعات کیلئے روانہ ہوگئے۔ اس واقعے نے نہ صرف شادی کی رسم کو باعزت انداز میں آگے بڑھایا بلکہ سماج میں جہیز جیسی غیر منصفانہ روایت کے خلاف ایک مضبوط اور مثبت مثال قائم کی۔ مقامی لوگوں نے کہا کہ یہ شادی ’’دولہا کا وقار‘‘، ’’دلہن کا احترام‘‘ اور ’’شادی میں مساوات‘‘ کا علامتی پیغام ہے۔
یہ بھی پڑھئے: جے اینڈ کے میڈیکل کالج تنازع: بی جے پی کا لسٹ منسوخی کا مطالبہ، عمرعبداللہ برہم
اودیش رانا نے بعد میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ان کا خاندان مادی طور پر خوشحال ہے مگر وہ چاہتے ہیں کہ شادی صرف محبت اور عزت کی بنیاد پر ہو، نہ کہ جہیز جیسی بوجھل رسم کی وجہ سے۔ انہوں نے واضح کیا کہ ’’ہم جہیز کے نظام کے خلاف ہیں۔ مجھے صرف بیوی چاہئے، پیسے نہیں۔‘‘ ان تبدیلی پسند خیالات اور انسانیت کی قدر نے نہ صرف شادی کی محفل کو خاص بنایا بلکہ پورے علاقے میں ایک مثبت بحث شروع کر دی ، کیا کہ آج بھی نوجوان تبدیلی لا سکتے ہیں اور خرافاتی رسموں کے خلاف کھڑے ہو سکتے ہیں۔