Inquilab Logo Happiest Places to Work

الاسکا سمٹ: یوکرین کو جنگ بندی کیلئے معاہدہ کرنے کی ضرورت ہے: پوتن سے ملاقات کے بعد ٹرمپ کا بیان

Updated: August 16, 2025, 6:02 PM IST | Washington

اگرچہ اس سربراہی اجلاس کو ایک بڑی پیش رفت کے موقع کے طور پر پیش کیا جا رہا تھا لیکن اس نے مبہم یقین دہانیوں کے علاوہ کچھ نہیں دیا۔

Trump and Putin. Photo: INN
ٹرمپ اور پوتن۔ تصویر: آئی این این

امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ اور روسی صدر ولادیمیر پوتن کے درمیان جمعہ کو الاسکا میں ایک اعلیٰ سطحی سربراہی اجلاس کسی بھی جنگ بندی معاہدے کے بغیر اختتام پذیر ہوا۔ اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ٹرمپ نے یوکرین پر زور دیا کہ وہ روس کے ساتھ ایک معاہدہ کرے۔ تقریباً تین گھنٹے تک جاری رہنے والے ان مذاکرات کو دونوں فریقوں نے “فائدہ مند” قرار دیا لیکن اس میں کوئی ٹھوس کامیابی حاصل نہیں ہوئی اور اس سوال کا جواب نہیں مل پایا کہ یورپ کی کئی دہائیوں کی سب سے مہلک جنگ کا خاتمہ کیسے ہوگا۔

کوئی کامیابی نہیں مگر مذاکرات ’فائدہ مند‘

بند کمرے میں ہونے والے اجلاس کے بعد، ٹرمپ اور پوتن مختصر وقت کیلئے میڈیا کے سامنے آئے لیکن انہوں نے سوالات کے جواب دینے سے گریز کیا۔ پس منظر میں “امن کا حصول” کے پوسٹر کے پاس کھڑے ہو کر ٹرمپ نے میڈیا کو بتایا کہ “ہم نے کچھ پیش رفت کی ہے۔ جب تک کوئی معاہدہ نہیں ہو جاتا، تب تک کوئی معاہدہ نہیں ہے۔” پوتن نے بھی ایسی ہی امید ظاہر کی لیکن انہوں نے بھی مخصوص نتائج کی وضاحت نہیں کی۔ اگرچہ اس سربراہی اجلاس کو ایک بڑی پیش رفت کے موقع کے طور پر پیش کیا جا رہا تھا لیکن اس نے مبہم یقین دہانیوں کے علاوہ کچھ نہیں دیا۔

یہ بھی پڑھئے: ٹرمپ نے نوبیل انعام کیلئے ناروے کے وزیر خزانہ کو فون کیا

اختلافات کو حل کرنے کا ’بہت اچھا موقع‘: ٹرمپ

اجلاس کے بعد فاکس نیوز کے شان ہینیٹی سے گفتگو کرتے ہوئے ٹرمپ نے کہا کہ روس کے ساتھ مذاکرات میں یوکرین کیلئے ممکنہ زمینی تبادلے اور سلامتی کی ضمانتیں شامل ہیں۔ ٹرمپ نے کہا کہ ”میرے خیال میں یہ وہ نکات ہیں جن پر ہم نے گفتگو کی اور بڑے پیمانے پر اتفاق کیا۔ میرے خیال میں ہم ایک معاہدے کے کافی قریب ہیں۔“ تاہم، انہوں نے زور دیا کہ حتمی فیصلہ کیف کا ہوگا۔ ٹرمپ نے کہا کہ ”یوکرین کو اس پر راضی ہونا پڑے گا۔ ہو سکتا ہے وہ نہ مانیں۔ لیکن میرے خیال میں یہ بہت اچھا موقع ہے کہ ہم اسے حل کر لیں گے۔“ اطلاعات کے مطابق، یوکرینی صدر وولودیمیر زیلنسکی، جنہوں نے سربراہی اجلاس کے بعد ٹرمپ سے بات کی، نے “تعمیری تعاون” کیلئے محتاط آمادگی کا اظہار کیا اور تصدیق کی کہ وہ مزید گفتگو کیلئے واشنگٹن کا سفر کریں گے۔

پوتن نے روس کے قومی مفادات پر زور دیا

پوتن نے اپنی جانب سے ماسکو کے دیرینہ مطالبات کا اعادہ کرتے ہوئے اصرار کیا کہ امن مذاکرات میں روس کے “جائز خدشات” کو بھی حل کیا جانا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ “یوکرین کی سلامتی کو یقینی بنایا جانا چاہئے لیکن ساتھ میں اس تنازع کی بنیادی وجوہات کو بھی ختم کیا جانا چاہئے۔” انہوں نے مذاکرات کو ایک قدم آگے بڑھنے کے طور پر پیش کرتے ہوئے زور دیا کہ روس اپنے قومی مفادات کے تحفظ پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرے گا۔

یہ بھی پڑھئے: ۶؍ ماہ میں ۶؍ جنگیں روکیں، ٹرمپ نے پھرہند پاک کشیدگی روکنے کا کریڈٹ لیا

مبصرین نے نوٹ کیا کہ پوتن نے صرف امریکی صدر کے ساتھ بیٹھ کر علامتی طور پر میدان مار لیا جس سے برسوں کی مغربی سفارتی تنہائی ختم ہو گئی۔ سرد جنگ کے مؤرخ سرگئی رادچینکو نے تبصرہ کیا کہ “پوتن نے بنیادی طور پر یہ دور جیت لیا کیونکہ انہیں بغیر کچھ دیئے کچھ حاصل ہو گیا۔ پھر بھی، ٹرمپ نے یوکرین کو فروخت نہیں کیا۔”

اگلی ملاقات ماسکو میں ہو سکتی ہے

دونوں لیڈران نے مزید گفتگو کا اشارہ دیا ہے۔ ٹرمپ نے کہا کہ اگلا سربراہی اجلاس ماسکو میں منعقد ہوسکتا ہے، جس پر پوتن نے بھی مسکراتے ہوئے انگریزی میں جواب دیا: “اگلی بار ماسکو میں۔” ٹرمپ نے تسلیم کیا کہ انہیں “اس اعلان پر تھوڑی تنقید کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے” لیکن انہوں نے اس کو خارج از امکان قرار نہیں دیا۔ ٹرمپ نے زیلنسکی کو شامل کرتے ہوئے ایک فالو اپ میٹنگ کا خیال بھی پیش کیا، تاہم کریملن کے حکام نے بعد میں واضح کیا کہ سہ فریقی سربراہی اجلاس پر باضابطہ طور پر گفتگو نہیں کی گئی۔

یہ بھی پڑھئے: اسرائیل کا فلسطینیوں کی جبری منتقلی کیلئے کئی ممالک سے مذاکرات: اسرائیلی میڈیا

زیلنسکی کے ساتھ ممکنہ سہ فریقی ملاقات غیر یقینی 

ٹرمپ نے دعویٰ کیا ہے کہ پوتن اور زیلنسکی کے درمیان ملاقات کے انتظامات کئے جا رہے ہیں لیکن اس ملاقات کے بارے میں غیر یقینی صورتحال برقرار ہے۔ یوکرینی حکام نے اصرار کیا ہے کہ کسی بھی تصفیے میں کیف کو براہ راست شامل کیا جانا چاہئے، انہیں اس بات کا خدشہ ہے کہ ٹرمپ اور پوتن شرائط مسلط کرنے کی کوشش کر سکتے ہیں۔ یورپی لیڈران نے بھی شکوک و شبہات کا اظہار کرتے ہوئے ایسے معاہدوں کے خلاف خبردار کیا جو یوکرین کی خودمختاری کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ نیٹو کے اتحادیوں نے کیف کیلئے اپنی حمایت کا اعادہ کیا۔ ناروے کے وزیر خارجہ ایسپن بارتھ ایڈی نے کہا کہ “ہمیں روس پر دباؤ بڑھانا جاری رکھنا چاہئے تاکہ ایک واضح پیغام دیا جا سکے کہ جارحیت کے نتائج ہوتے ہیں۔”

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK