Updated: August 15, 2025, 7:00 PM IST
| Washington
امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے پوتن سے ملاقات سے قبل ایک بار پھر خود کو عالمی ’’صلح جو‘‘ قرار دیتے ہوئے دعویٰ کیا کہ انہوں نے ہندوستان اور پاکستان کو ایٹمی تصادم سے بچایا۔ انہوں نے کہا کہ چھ یا سات طیارے گرائے جانے کے بعد حالات بگڑنے والے تھے، مگر انہوں نے معاملہ سنبھال لیا۔
ڈونالڈ ٹرمپ۔ تصویر: آئی این این۔
روس کے صدر ولادیمیر پوتن سے اپنی ملاقات سے ایک روز قبل، امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے دنیا بھر میں جاری تنازعات میں جنگ بندی کرانے کا سہرا اپنے سر باندھنے کا سلسلہ جاری رکھا۔ بظاہر نوبیل امن انعام کیلئے اپنی مہم کو تقویت دینے کی کوشش میں، امریکی لیڈر نے کئی ممالک کے درمیان ’’صلح کرانے‘‘ کے بڑے دعوے دہرائے جن میں جوہری طاقت کے حامل ہمسایہ ممالک، ہندوستان اور پاکستان بھی شامل تھے۔ ٹرمپ نے کہا: ’’آپ جانتے ہیں، میں نے پچھلے چھ ماہ میں چھ جنگیں ختم کی ہیں، بلکہ چھ ماہ سے بھی کچھ زیادہ عرصے میں۔ ‘‘ یہ بات انہوں نے جمعہ کو الاسکا میں پوتن سے ملاقات سے قبل کہی، جہاں وہ روس کے یوکرین پر جاری حملوں کو سفارتی طور پر ختم کرنے کی کوشش کرنے والے تھے۔
یہ بھی پڑھئے: برطانیہ: چکن گنیا کے معاملات میں ۱۷۰؍ فیصد اضافہ: رپورٹ
ہندوستان-پاکستان جنگ بندی کا کریڈٹ دوبارہ لینے کی کوشش
یہ بتاتے ہوئے کہ انہوں نے اپنے دوسرے صدارتی دور میں اب تک کون کون سی عالمی جنگیں ’’حل‘‘ کی ہیں، ٹرمپ نے کہا: ’’اگر آپ پاکستان اورہندوستان کو دیکھیں، تو طیارے گرائے جا رہے تھے۔ ‘‘ انہوں نے مزید کہا: ’’چھ یا سات طیارے مار گرائے گئے تھے۔ وہ شاید ایٹمی جنگ کی طرف بڑھنے والے تھے، ہم نے یہ مسئلہ حل کیا۔ ‘‘ یہ بات انہوں نے وہائٹ ہاؤس میں صحافیوں سے کہی۔ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان جنگ بندی کیلئے ٹرمپ کے دعوے اپریل کے پہلگام حملے کے بعد سے سامنے آنا شروع ہوئے تھے، جس کے بعد ہندوستان نے پاکستان میں قائم دہشت گردی کے ڈھانچے پر ’’آپریشن سندور‘‘ کے ذریعے جوابی کارروائی کی تھی۔ اس دوران وزیر اعظم نریندر مودی بارہا یہ کہہ چکے ہیں کہ امریکہ کو ثالث کا کردار ادا کرنے کی ضرورت نہیں۔ وزیر اعظم مودی نے پہلے کہا تھا: ’’ہم نے پہلے دن سے ہی کہا تھا کہ ہماری کارروائی غیر اشتعال انگیز ہے۔ دنیا کے کسی لیڈر نے ہم سے آپریشن سندور روکنے کیلئے نہیں کہا۔ ‘‘
یہ بھی پڑھئے: یوئیفا سپر کپ: غزہ کے بچوں اور شہریوں کے قتل کے خلاف یوئیفا کا واضح پیغام
پوتن ملاقات سے قبل نوبیل انعام کی مہم میں تیزی
ٹرمپ کی صحافیوں سے گفتگو زیادہ تر اس بات پر مرکوز تھی کہ ان کی پوتن سے ہونے والی ملاقات کیسی رہے گی۔ مختلف عالمی تنازعات کے حل کا کریڈٹ لیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ روس-یوکرین جنگ ’’کبھی سمجھ میں نہیں آئی‘‘ اور اگر وہ اس کے آغاز کے وقت صدر ہوتے تو یہ کبھی نہ ہوتی۔ انہوں نے اس جنگ کو ’’بائیڈن کی جنگ‘‘ قرار دیا، نہ کہ اپنی اور کہا کہ اس کے باوجود وہی اس خونریزی کو روکنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ٹرمپ نے کہا کہ اگرچہ انہیں توقع ہے کہ جمعہ کو پوتن سے ہونے والی ملاقات ’’اچھی‘‘ رہے گی، مگر اس کے بعد پوتن اور یوکرینی صدر زیلنسکی کے ساتھ ایک مشترکہ نشست، جس میں ممکنہ طور پر کچھ یورپی لیڈربھی شامل ہوں گے، زیادہ ’’اہم‘‘ ہوگی۔ انہوں نے روس-یوکرین جنگ کو ’’سب سے مشکل‘‘ مسئلہ قرار دیا، حالانکہ ابتدا میں انہوں نے سوچا تھا کہ یہ ’’سب سے آسان‘‘ ہوگا۔
ٹرمپ نے مزید کہا: ’’ہمارے پاس ایک جنگ ہے جو آپ جانتے ہیں ۳۷؍ سال سے جاری ہے، ایک کانگو اور روانڈا کے درمیان جو ۳۱؍ سال سے جاری تھی… ہم نے ان میں سے چھ کو حل کر دیا، نہ صرف حل کیا بلکہ امن قائم کیا۔ ‘‘ اس کے بعد وہ دوبارہ ہندوستان اور پاکستان کے معاملے پر آئے اور پھر روس-یوکرین جنگ کی بات کرنے لگے۔
یہ بھی پڑھئے: نیتن یاہو کے’اسرائیل عظمیٰ‘ کے بیان کی عربوں کی مذمت، فلسطینی خودمختاری کی حمایت
وہائٹ ہاؤس کا ردعمل ٹرمپ کی نوبیل انعام کی کوشش پر
وہائٹ ہاؤس کی پریس سیکریٹری کیرولین لیوٹ نے جولائی کی اپنی تقریروں میں ٹرمپ کو نوبیل انعام کا حقدار ظاہر کرنے پر زور دیا، تاہم، ایک اور وہائٹ ہاؤس اہلکار نے کہا کہ صدر کو پہلے سے معلوم ہے کہ انہیں یہ اعزاز نہیں ملے گا۔ این بی سی نیوز کے مطابق اس اہلکار نے کہا: ’’صدر کا ماننا ہے کہ وہ نوبیل امن انعام کے حقدار ہیں، لیکن وہ نہیں سمجھتے کہ انہیں یہ ملے گا۔ ‘‘ ان کا مزید کہنا تھا: ’’انہوں نے کہا ہے کہ یہ انعام کسی ایسے شخص کو دیا جائے گا جو ڈونالڈ ٹرمپ کے خیالات پر کتاب لکھے، نہ کہ خود ڈون لڈ ٹرمپ کو۔ ‘‘پولیٹیکو کے مطابق ایک اور وہائٹ ہاؤس اہلکار نے صاف الفاظ میں کہا کہ صدر دنیا کے ’’صلح جو‘‘ کے طور پر اپنی پوزیشن کا لطف اٹھا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا: ’’انہیں یہ پسند ہے کہ وہ دنیا کے چھوٹے اور کمزور ممالک کیلئے ’بادشاہ گر‘ کی پوزیشن میں ہیں۔ ‘‘