Inquilab Logo Happiest Places to Work

الہ آباد ہائی کورٹ نے سنبھل شاہی جامع مسجد کے صدر ظفرعلی کو ضمانت دے دی

Updated: July 24, 2025, 10:10 PM IST | Lukhnow

الہ آباد ہائی کورٹ نے ظفر علی، جو ایک ممتاز وکیل، سنبھل شاہی جامع مسجد کے صدر اور معروف سماجی کارکن ہیں، کو ضمانت دے دی ہے۔ انہیں نومبر۲۰۲۴ء میں سنبھل میں پولیس تشدد کے خلاف آواز اٹھانے پر گرفتار کیا گیا تھا جس میں کم از کم پانچ مسلمانوں کی جانیں گئی تھیں۔

President of Sambhal Shahi Jama Masjid and well-known social activist Zafar Ali. Photo: X
سنبھل شاہی جامع مسجد کے صدر اور معروف سماجی کارکن ظفرعلی۔ تصویر: ایکس

الہ آباد ہائی کورٹ نے ظفر علی، جو ایک ممتاز وکیل، سنبھل شاہی جامع مسجد کے صدر اور معروف سماجی کارکن ہیں، کو ضمانت دے دی ہے۔ انہیں نومبر۲۰۲۴ء میں سنبھل میں پولیس تشدد کے خلاف آواز اٹھانے پر گرفتار کیا گیا تھا جس میں کم از کم پانچ مسلمانوں کی جانیں گئی تھیں۔یہ ضمانت جسٹس سمیر جین کی سنگل بینچ نے منظور کی۔ ظفر علی فی الحال موراد آباد جیل میں قید ہیں۔انہیں اتر پردیش پولیس کی خصوصی تحقیاتی ٹیم (ایس آئی ٹی) نے مسجد کے سروے اور اس کے بعد ہونے والی پولیس کارروائی کے خلاف احتجاج کے سلسلے میں گرفتار کیا تھا۔

یہ بھی پڑھئے: کانوڑ یاترا کے سبب راستوں پر گندگی کا ڈھیر، مقامی افراد اور ماہرین پریشان

علی پر مختلف دفعات لگائی گئی تھیں۔پولیس کا دعویٰ تھا کہ وہ مسجد کے عدالتی حکم پر ہونے والے سروے کے بعد ہونے والے تشدد میں ملوث تھے۔ تاہم، مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ انہیں پولیس کارروائی کے خلاف آواز اٹھانے پر نشانہ بنایا گیا۔واضح رہے کہ نومبر۲۰۲۴ء کو سنبھل شہر میں شدید تشدد پھوٹ پڑا جب ایک محکمہ آثار قدیمہ کی ٹیم تاریخی شاہی جامع مسجد کا سروے کرنے آئی، جس کے ساتھ ہندوتوا مہجوم جے شری رام کے نعرے لگا رہا تھا۔ جب مقامی مسلمان مسجد کے باہر جمع ہوئے اور کشیدگی بڑھ گئی تو پولیس نے ہجوم پر گولیاں چلا دیں۔ کم از کم پانچ مسلمان نوجوان ہلاک ہو گئے۔ پولیس کے مطابق، ظفر علی۱۹؍ نومبر کو منصوبہ بند سروے کی معلومات حاصل کرنے والے اولین افراد میں شامل تھے اور انہوں نے احتجاج کو منظم کرنے میں مدد کی، جو بعد میں جھڑپوں میں بدل گیا۔ گزشتہ سال ایک پریس کانفرنس کے بعد انہیں اتر پردیش پولیس نے عارضی طور پر حراست میں لے لیا تھا، جہاں انہوں نے سینئر ضلعی افسران پر مسلم نوجوانوں پر پولیس فائرنگ کرانے کا الزام لگایا تھا۔ یہ پریس کانفرنس واقعہ کے ایک دن بعد منعقد ہوئی تھی۔بریفنگ کے دوران، علی نے ہلاکتوں تک لے جانے والے واقعات کی تفصیل بتاتے ہوئے الزام لگایا کہ انہوں نے ڈپٹی انسپکٹر جنرل ،سپرنٹنڈنٹ آف پولیس اور ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کو مظاہرین کے خلاف فائرنگ کے احکامات پر تبادلہ خیال کرتے دیکھا تھا۔انہوں نے پولیس کے اس دعوے کو بھی مسترد کر دیا کہ تشدد کی شروعات مظاہرین نے کی تھی۔

یہ بھی پڑھئے: ۲۰۰۶ء ممبئی دھماکہ: ملزمین کی رہائی کے فیصلے کو بطور نظیر استعمال کرنے پر روک: سپریم کورٹ

انہوں نے کہا’’ہجوم اس لیے قابو سے باہر ہو گیا کہ انہیں لگا کہ کھدائی جاری ہے۔ پرسکون رہنے کی ہماری اپیلوں اور صورتحال کی وضاحت کرنے کے اعلانات کے باوجود، انتظامیہ کی نااہلی اور رابطے کی کمی نے افراتفری کو اور بڑھا دیا۔‘‘علی نے افسران پر بحران کے دوران خوف و ہراس پھیلانے اور قیادت نہ کرنے کا بھی الزام لگایا۔انہوں نے کہا’’جب میں موجود تھا تو افسران فائرنگ کے احکامات جاری کرنے پر غور کر رہے تھے۔ میں نے لوگوں سے گھر جانے کی اپیل کی اور۷۵؍ فیصد ہجوم کو منتشر کرنے میں کامیاب ہو گیا، لیکن پولیس کی کارروائی بلا اشتعال اور وحشیانہ تھی۔‘‘

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK