• Fri, 28 November, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

عالمی فیشن برانڈز مزدوروں کے استحصال میں ملوث: ایمنسٹی انٹرنیشنل

Updated: November 28, 2025, 5:05 PM IST | Washington

ایمنسٹی انٹرنیشنل نے ایک رپورٹ میں عالمی فیشن برانڈز پر مزدوروں کے استحصال کے ارتکاب کا الزام عائد کیا ہے، اس کے علاوہ رپورٹ میںیہ بھی کہا گیا ہے کہ مزدوروں کے حقوق کی خلاف ورزی سے حکومتیں، فیکٹریاں اور عالمی فیشن برانڈز فائدہ اٹھا رہے ہیں۔

Photo: INN
تصویر: آئی این این

ایمنسٹی انٹرنیشنل نے جمعرات کو جاری کی گئی دو رپورٹس میں کہا ہے کہ بنگلہ دیش، ہندوستان ،پاکستان اور سری لنکا میں گارمنٹ کارکنوں کے جبر اور ان کے مزدوری کے حقوق کی خلاف ورزی سے حکومتیں، فیکٹریاں اور عالمی فیشن برانڈز فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ایمنسٹی انٹرنیشنل کی سیکرٹری جنرل اگنیس کالامارڈ کا کہنا تھا، ’’فیشن برانڈز، فیکٹری مالکان اور بنگلہ دیش، ہندوستان ،پاکستان اور سری لنکا کی حکومتوں کا یہناجائز  اتحاد ایسی صنعت کو سہارا دے رہا ہے جو اپنے یہاں انسانی حقوق کی مسلسل خلاف ورزیوں کے لیے بدنام ہے۔‘‘انہوں نے کہا، گارمنٹ کارکنوں کے یونین سازی پر دھمکی اور برطرفی  کی وجہ سے یہ صنعت انتہائی کم اجرت، زیادہ کام اور زیادہ تر خواتین پر مشتململازمین  کے استحصال پر دہائیوں سے پنپ رہی ہے۔یہ دو رپورٹس’’ اسٹچڈ اپ: ڈینائل آف فریڈم آف ایسوسی ایشن فار گارمنٹ ورکرز ان بنگلہ دیش، انڈیا، پاکستان اینڈ سری لنکا‘‘اور ’’ابینڈنڈ بائی فیشن: دی ارجنٹ نیڈ فار فیشن برانڈز ٹو چیمپئن ورکر رائٹس،‘‘گارمنٹ کی صنعت میں وسیع پیمانے پر ہونے والی بدعنوانیوں، کارکنوں کے حقوق کی خلاف ورزیوں، ہراسانی اور تشدد کی دستاویزات پیش کرتی ہیں۔

یہ بھی پڑھئے: اسرائیل کی حراست میں فلسطینیوں کا منظم قتل، حماس کا بین الاقوامی اقدام کا مطالبہ

یہ دونوں رپورٹس ستمبر۲۰۲۳ء اور اگست۲۰۲۴ء کے درمیان ایمنسٹی انٹرنیشنل کی جانب سے کی گئی تحقیق پر مبنی ہیں، جس میں چاروں ممالک کی۲۰؍ فیکٹریوں میں۸۸؍ انٹرویوشامل ہیں۔ نومبر ۲۰۲۳ء میں ایمنسٹی انٹرنیشنل نے جرمنی، ڈنمارک، جاپان، سپین، سویڈن، برطانیہ، امریکہ، سپین اور چین سمیت نو ممالک میں۲۱؍ بڑے برانڈز اور خردہ فروشوں کو ایک سروے بھیجا تھا، جس میں ان سے انسانی حقوق کی پالیسیوں، نگرانی اور ایسوسی ایشن کی آزادی، صنفی مساوات اور خریداری کے طریقوں سے متعلق ٹھوس اقدامات کے بارے میں معلومات طلب کی گئی تھیں۔ایڈیڈاس، اے ایس او ایس، فاسٹ ریٹیلنگ، انڈیٹیکس، اوٹو گروپ اور پرائیمارک نے مکمل جوابات فراہم کیے۔ مارکس اینڈ اسپینسر اور والمارٹ سمیت بہتسی دیگر کمپنیوں  نے جزوی معلومات کے ساتھ جواب دیا، جبکہ بوہو، ایچ اینڈ ایم، ڈیسگیول، نیکسٹ اور گیپ سمیت کچھ نے معلومات فراہم کرنے میں ناکام رہے۔ 

یہ بھی پڑھئے: ہانگ کانگ :آتشزدگی سانحہ میں اب تک ۵۵؍افراد ہلاک

تاہم ایشیا کے چاروں ممالک میں، گارمنٹ ملازمین کا کہنا تھا کہ ٹھیکیدارکے ذریعے ہراساں کئے جانے، دھمکی دینے، برطرفی کے خطرے نے انہیں یونین میں شامل ہونے سے روکا۔جو ایسوسی ایشن کی آزادی کے ان کے حق کی صریح خلاف ورزی ہے۔ ہندوستان میں، ملبوسات کی صنعت میں کام کرنے والے گھریلو کارکنوں کی بڑی تعداد، جو فیکٹری سے باہر کڑھائی یا ملبوسات کو آخری شکل دینے کا کام کرتے ہیں، ملک کے لیبر قوانین کے تحت ملازمین کے طور پر تسلیم نہیں کیے جاتے اور اس طرح وہ پنشن، دیگر ملازمت سے متعلق سماجی تحفظ کی سہولیات یا یونین رکنیت کے اہل نہیں ہیں۔جنوبی ایشیا میں ملبوسات کی صنعت کی لیبر فورس کا بیشتر حصہ خواتین پر مشتمل ہے، جو اکثر دیہی مزدورہوتی ہیں یا پسماندہ ذاتوں سے تعلق رکھتی ہیں ۔ ان کی تعداد کے باوجود، فیکٹری کے انتظام میں ان کی نمائندگی کم ہے۔خواتین ملبوسات کارکنوں نے کام کی جگہ پر معمول کے مطابق ہراساں کیے جانے، حملوں کا نشانہ بننے اور جسمانی یا جنسی طور پر زیادتی کیے جانے کی اطلاعات دی ہیں۔ تاہم انہیں شاذ و نادر ہی انصاف ملتا ہے۔
 مردوں کی زیر قیادت فیکٹریوں میں ان کی شکایات سننے کے لیے موثر، آزاد میکانزم کی کمی، تنظیم سازی پر حکومتی پابندیوں اور یونین بنانے والے کارکنوں کے خلاف کانٹریکٹر کی دھمکیوں کے امتزاج کا مطلب ہے کہ ان کی تکالیف جاری ہیں۔ پاکستان کی ایک یونین آرگنائزر نے ایمنسٹی انٹرنیشنل کو بتایا، ’’مجھے جسمانی طور پر ہراساں کیا گیا اور زبانی طور پر گالی دی گئی۔ انتظامیہ میں کسی نے بھی میری شکایات پر توجہ نہیں دی پھر میں نے دوسری خواتین کو منظم ہونے کو کہا۔ مجھے کئی بار برطرف کرنے کی دھمکی دی گئی۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK