Inquilab Logo Happiest Places to Work

آسٹریلیا: ارب پتیوں کی دولت میں یومیہ ۱۳۷؍ ملین ڈالر کا اضافہ، ملک میں عدم مساوات مزید گہری: رپورٹ

Updated: June 04, 2025, 9:06 PM IST | Canberra

آکسفیم آسٹریلیا کی رپورٹ، ملک میں بڑھتی ہوئی معاشی خلیج کو ظاہر کرتی ہے، جہاں امیر ترین افراد کی دولت میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے جبکہ عام آسٹریلوی باشندے، بدترین رہائشی بحران اور زندگی کے بڑھتے ہوئے اخراجات کا سامنا کر رہے ہیں۔

Photo: INN
تصویر: آئی این این

آسٹریلوی ارب پتیوں کی دولت میں اوسطاً یومیہ ۱۳۷ ملین ڈالرز کا اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ حیرت انگیز انکشاف آکسفیم آسٹریلیا کی ایک حالیہ تجزیاتی رپورٹ نے کیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق، گزشتہ ایک دہائی کے دوران آسٹریلیا کے ارب پتیوں کی دولت میں روزانہ اوسطاً ۱۳۷ ملین آسٹریلوی ڈالر (تقریباً ۸۸ ملین امریکی ڈالر) کا اضافہ ہوا ہے، جبکہ لاکھوں باشندے مہنگائی اور بڑھتے ہوئے اخراجات کے بحران سے نبردآزما ہیں۔

آکسفیم آسٹریلیا کے ذریعے منگل کو جاری کی گئی رپورٹ، آسٹریلین فنانشل ریویو رچ لسٹ پر مبنی ہے۔ اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ۲۰۱۵ء سے ۲۰۲۵ء کے درمیان ملک میں ارب پتیوں کی تعداد میں دو گنا سے بھی زیادہ اضافہ ہوا ہے جس کے بعد ملک میں ارب پتیوں کی تعداد ۷۴ سے ۱۶۱ تک پہنچ گئی ہے۔ ان ارب پتی افراد کی مجموعی دولت میں بھی ۱۶۰ فیصد کا اضافہ ہوا جس کے بعد ان کی کل دولت ۸ء۶۶۷ ارب آسٹریلوی ڈالر (تقریباً ۴۳۱ ارب امریکی ڈالر) تک پہنچ گئی۔ اس کا مطلب ہے کہ گزشتہ دہائی میں ان کی دولت میں ہر منٹ، ۹۵ ہزار آسٹریلوی ڈالر (تقریباً ۶۱ ہزار ۳۴۴ امریکی ڈالر) کا اضافہ ہوا ہے۔

یہ بھی پڑھئے: جرمنی: نسل پرست امتیازی سلوک کی شکایات میں تین گنا اضافہ

آکسفیم کے مطابق، آسٹریلیا کے امیر ترین افراد کیلئے دولت جمع کرنے کا سب سے عام ذریعہ جائیداد ہے، جس کے بعد، خوردہ، سرمایہ کاری اور کان کنی کے شعبے میں ان کی دولت مرتکز ہے۔ آکسفیم نے بتایا، "گزشتہ دس برسوں میں، جائیداد آسٹریلیا کے امیر ترین افراد کیلئے دولت جمع کرنے کا سب سے بڑا ذریعہ رہی ہے، اس کے بعد خوردہ، سرمایہ کاری اور کان کنی/وسائل جیسے شعبے آتے ہیں۔"

آکسفیم کی رپورٹ ملک میں بڑھتی ہوئی معاشی خلیج کو ظاہر کرتی ہے، جہاں امیر ترین افراد کی دولت میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے جبکہ عام آسٹریلوی باشندے، بدترین رہائشی بحران اور زندگی کے بڑھتے ہوئے اخراجات کا سامنا کر رہے ہیں۔ آکسفیم آسٹریلیا کی قائم مقام چیف ایگزیکٹیو کریسانتا مولی نے کہا، "اس سطح کی عدم مساوات نہ صرف اخلاقی طور پر غلط ہے بلکہ معاشی اور سماجی طور پر بھی خطرناک ہے۔ ایک طرف جہاں لاکھوں آسٹریلوی باشندے اپنی ضروریات پوری کرنے کیلئے جدوجہد کر رہے ہیں، وہیں دوسری طرف ملک کے امیر ترین افراد بغیر کوئی محنت کئے حیران کن حد تک دولت جمع کر رہے ہیں۔"

یہ بھی پڑھئے: غزہ دنیا کا وہ مقام بن گیا ہے جہاں بھوک کی شدت سب سے زیادہ ہے: او سی ایچ اے

مولی نے بتایا کہ تقریباً ۲ کروڑ ۷۰ لاکھ نفوس پر مشتمل آبادی والے اس ملک میں، تقریباً ۲۰ لاکھ آسٹریلوی گھرانے، دو وقت کے کھانے کیلئے بڑی دشواریوں کا سامنا کرتے ہیں، ہزاروں خاندان ایک وقت کا کھانا نہیں کھاتے اور اپنے بل ادا کرنے کیلئے جدوجہد کرتے ہیں۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK