اگرچہ جیکسن ’ورڈیز‘ کے صدر کے طور پر خدمات انجام دے رہا ہے لیکن اس کا کہنا ہے کہ اگر ورڈیز کو باضابطہ طور پر تسلیم کرلیا جاتا ہے تو وہ یہ عہدہ چھوڑ دے گا اور جمہوری انتخابات کی اجازت دے گا۔
EPAPER
Updated: August 08, 2025, 9:57 PM IST | Canberra
اگرچہ جیکسن ’ورڈیز‘ کے صدر کے طور پر خدمات انجام دے رہا ہے لیکن اس کا کہنا ہے کہ اگر ورڈیز کو باضابطہ طور پر تسلیم کرلیا جاتا ہے تو وہ یہ عہدہ چھوڑ دے گا اور جمہوری انتخابات کی اجازت دے گا۔
ایک آسٹریلوی نوجوان نے بالکن ممالک کروشیا اور سربیا کے درمیان متنازع علاقے میں نئے ملک کی بنیاد رکھی ہے اور خود کو اس ملک کا صدر قرار دے دیا ہے۔ ۲۰ سالہ ڈینیل جیکسن ”فری ریپبلک آف ورڈیز“ کا بانی ہے جو دریائے ڈینیوب کے کنارے واقع، ۱۲۵ ایکڑ پر مشتمل جنگلاتی علاقے میں قائم ایک خود ساختہ مائیکرونیشن (چھوٹا ملک) ہے۔ اس علاقے کو “پاکٹ تھری” کے نام سے جانا جاتا ہے اور یہ ایک گرے زون کا حصہ ہے۔ کروشیا اور سربیا کے درمیان طویل عرصے سے جاری سرحدی تنازع کی وجہ سے ان میں سے کوئی بھی اس زمین پر دعویٰ نہیں کرتا ہے۔
ورڈیز کی شروعات ایک تفریحی تجربے کے طور پر ہوئی جب جیکسن صرف ۱۴ سال کا تھا۔ جب وہ ۱۸ سال کا ہوا تو اس ڈجیٹل ڈیزائنر نے ۳۰ مئی ۲۰۱۹ء کو باضابطہ طور پر ملک ’ورڈیز‘ کی آزادی کا اعلان کر دیا۔ آج، ورڈیز کا دعویٰ ہے کہ دنیا بھر میں اس کے تقریباً ۴۰۰ شہری ہیں، اس ملک کا باقاعدہ ایک جھنڈا، آئین اور چند وزراء پر مشتمل ایک کابینہ بھی ہے۔
ڈینیئل جیکسن کون ہے؟
جیکسن ۲۰۰۴ء میں آسٹریلیا کے شہر اپر فرنٹری گلی میں پیدا ہوا تھا۔ ’ورڈیز‘ کی ذمہ داریاں سنبھالنے کے علاوہ، وہ روبلوکس جیسے پلیٹ فارمز پر ڈجیٹل مواد بناتا ہے۔ آزادی کے اعلان کے بعد سے ڈینیل نئے ملک کے صدر کا کردار ادا کررہا ہے اور قوم کی تعمیر، بین الاقوامی سطح پر تسلیم کئے جانے اور ورڈیز کی آبادی کو بڑھانے پر اس کی توجہ مرکوز ہے۔ ملک کی تین سرکاری زبانیں انگریزی، کروشین اور سربین ہیں اور وہاں کرنسی کے طور پر یورو کا استعمال کیا جاتا ہے۔ اس زمین تک صرف کروشیا کی طرف سے کشتی کے ذریعے پہنچا جا سکتا ہے اگرچہ داخلے پر تیزی سے پابندیاں عائد کی جا رہی ہیں۔
یہ بھی پڑھئے: امریکہ، ہندوستان اور پاکستان تنازع کے دوران براہِ راست ملوث تھا: مارکوروبیو
کروشین حکام کے ساتھ تنازع
ورڈیز پر قبضہ کرنے کی جیکسن کی کوششوں کو مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ اکتوبر ۲۰۲۳ء میں کروشین پولیس نے مبینہ طور پر جیکسن اور ورڈیز کے کئی حامیوں کو حراست میں لیا اور ملک بدر کردیا تھا۔ جیکسن کا دعویٰ ہے کہ اب اس پر کروشیا میں داخل ہونے پر تاحیات پابندی عائد کردی گئی ہے حالانکہ اسے کبھی اس کی کوئی باضابطہ وجہ نہیں بتائی گئی۔ جیکسن کے مطابق، حکام نے انہیں ”ملک کی سلامتی کیلئے خطرہ“ قرار دے دیا ہے۔
ایک "جلاوطن حکومت" چلا رہے جیکسن کا الزام ہے کہ کروشیا کے حکام نے سربیا کی طرف سے داخلے کو روکنے کیلئے سرحدی گشت کو بڑھا دیا ہے۔ کشیدگی کے باوجود، اس کا کہنا ہے کہ وہ پرامن گفتگو کیلئے پرعزم ہیں۔ اس نے کہا کہ “ہم بالآخر ان کے ساتھ اچھے تعلقات چاہتے ہیں۔”
یہ بھی پڑھئے: غزہ پر قبضہ انتہائی سنگین غلطی ہوگی : اپوزیشن لیڈر یائر لپیڈ
شہریت، پاسپورٹ اور مستقبل
’ورڈیز‘ نے اپنے شہریوں کو پاسپورٹ بھی جاری کئے ہیں، اگرچہ انہیں بین الاقوامی سطح پر تسلیم نہیں کیا جاتا۔ جیکسن کا دعویٰ ہے کہ کچھ پاسپورٹ ہولڈرز کامیابی سے دوسرے ممالک میں داخل ہو چکے ہیں۔ شہریت کا عمل انتخابی ہے جس میں ڈاکٹروں، وکلاء اور سیکوریٹی ماہرین جیسے پیشہ ور افراد کو ترجیح دی جاتی ہے۔ اگرچہ جیکسن صدر کے طور پر خدمات انجام دے رہا ہے لیکن اس کا کہنا ہے کہ اگر ورڈیز کو باضابطہ طور پر تسلیم کرلیا جاتا ہے تو وہ یہ عہدہ چھوڑ دے گا اور جمہوری انتخابات کی اجازت دے گا۔