Inquilab Logo Happiest Places to Work

الہ آباد ہائی کورٹ میں ۵؍ نئے ججوں کی تقرری، ۲؍ مسلمان

Updated: August 07, 2025, 8:01 PM IST | Lucknow

ایک اہم پیش رفت میں مرکزی حکومت نے الہ آباد ہائی کورٹ کیلئے پانچ نئے ججوں کی تقرری کی منظوری دے دی ہے جن میں دو تجربہ کار مسلم جج، عبدالشاہد اور ظفیر احمد شامل ہیں۔

Exterior view of the Allahabad High Court building. Photo: INN.
الہ آباد ہائی کورٹ کی عمارت کا بیرونی منظر۔ تصویر: آئی این این۔

ایک اہم پیش رفت میں مرکزی حکومت نے الہ آباد ہائی کورٹ کیلئے پانچ نئے ججوں کی تقرری کی منظوری دے دی ہے جن میں دو تجربہ کار مسلم جج، عبدالشاہد اور ظفیر احمد شامل ہیں۔ اس فیصلے کو ملک کی اعلیٰ عدلیہ میں مسلمانوں کی کم نمائندگی پر پائے جانے والے گہرے تحفظات کو دور کرنے کی طرف ایک دیرینہ اور ضروری قدم کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ یہ تقرریاں سپریم کورٹ کولیجیم کی سفارش کے بعد منظور کی گئیں۔ عبدالشاہد اور ظفیر احمد دونوں نے اترپردیش کے مختلف اہم عدالتی عہدوں پر خدمات انجام دی ہیں اور قانون کے شعبے میں دہائیوں کا تجربہ رکھتے ہیں۔ دو مسلم ججوں کی شمولیت کو قانونی حلقوں اور سول سوسائٹی کے افراد نے ایک نایاب مگر اہم قدم قرار دیا ہے جو عدلیہ میں شمولیت اور تنوع کی طرف ایک مثبت اشارہ ہے۔ 
لکھنؤ سے ایڈووکیٹ رضوان علی نے کہا:’’یہ صرف ان دونوں ججوں کی ذاتی کامیابی نہیں ہے بلکہ پوری برادری کیلئے امید کی کرن ہے۔ دہائیوں سے ہائی کورٹس اور سپریم کورٹ میں مسلمانوں کی نمائندگی نہ ہونے کے برابر رہی ہے۔ یہ تقرریاں خوش آئند ہیں لیکن یہ صرف آغاز ہے، مزید کام ہونا چاہئے۔ ‘‘جسٹس عبدالشاہد نے پیلی بھیت میں ضلع و سیشن جج کی حیثیت سے خدمات انجام دی ہیں اور اس سے قبل رائے بریلی، پرتاپ گڑھ، اور امیٹھی جیسے اضلاع میں تعینات رہے ہیں۔ ان کے ساتھ کام کرنے والے افسران نے انہیں منصف مزاج اور دیانت دار جج قرار دیا ہے۔ 

یہ بھی پڑھئے: بہار: ووٹر لسٹ کے مسودہ میں خامیوں کا انکشاف

ایک ریٹائرڈ عدالتی افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا:’’جسٹس شاہد اپنی قانونی بصیرت اور سادہ طرز زندگی کیلئے مشہور ہیں۔ ان کے فیصلے ہمیشہ مدلل ہوتے تھے اور وکلاء اور ججز دونوں ان کی رائے کا احترام کرتے تھے۔ ‘‘ جسٹس ظفیر احمد بھی وسیع تجربہ کے حامل ہیں۔ انہوں نے گونڈا، امروہہ، جھانسی اور بدایوں میں ضلع جج کے طور پر کام کیا، نیز لکھنؤ میں کمرشیل کورٹ کی صدارت بھی کی۔ 
بدایوں سے سینئر وکیل فرزانہ مہدی نے کہا:’’وہ صرف قانون کی زبان ہی نہیں سمجھتے، بلکہ عام آدمی کی سماجی حقیقتوں کو بھی جانتے ہیں۔ ان کی موجودگی عدلیہ میں انصاف کی فراہمی کیلئے مثبت قدم ہے۔ ‘‘ دو مسلم ججوں کے ساتھ تین دیگر ججوں کی بھی تقرری ہوئی ہے: پرمود کمار سریواستو، سنتوش رائے، اور تیج پرتاپ تیواری۔ ان تمام تقرریوں کو آئین کے آرٹیکل۲۱۷؍(۱) کے تحت صدرِ جمہوریہ ہند نے منظور کیا ہے۔ یہ پانچوں جج جلد ہی اپنی ذمہ داریاں سنبھالیں گے اور تقرری کی تاریخ سے کام کا آغاز کریں گے۔ 

یہ بھی پڑھئے: ’’ایس آئی آر نہیں چلے گا، ووٹوں کی لوٹ مار بند کرو ‘‘

دلچسپ بات یہ ہے کہ عبدالشاہد اور تیج پرتاپ تیواری کے نام اپریل۲۰۲۵ءمیں بھیجے گئے آٹھ ججوں کی ابتدائی فہرست میں شامل تھےلیکن اس وقت انہیں منظوری نہیں ملی تھی۔ اس بار دوبارہ نامزدگی اور حتمی منظوری کو حکومت کے رویے میں تبدیلی کے طور پر دیکھا جا رہا ہے، شاید اس وجہ سے کہ عدلیہ میں تنوع کی کمی پر بڑھتی ہوئی تنقید سامنے آئی ہے۔ الہ آباد ہائی کورٹ کے ایک سینئر وکیل نے کہا:’’ان کے نام کئی ماہ سے زیر التوا تھے۔ اچھا ہوا کہ حکومت نے آخرکار منظوری دے دی لیکن ابتدا میں تاخیر کیوں ہوئی؟ مسلم امیدواروں کے نام ہمیشہ ترجیحات کی فہرست کے آخر میں کیوں ہوتے ہیں ؟‘‘قانونی ماہرین اور انسانی حقوق کے کارکنوں کے مطابق، اعلیٰ عدلیہ میں مسلم ججوں کی تعداد انتہائی کم ہے حالانکہ مسلمان ہندوستان کی سب سے بڑی اقلیتوں میں سے ایک ہیں۔ ملک بھر میں ہائی کورٹ کے ۷۵۰؍سے زائد ججوں میں صرف چند ہی مسلمان ہیں۔ 

یہ بھی پڑھئے: بچپن کے دوستوں کا گروپ اترکاشی کی سیر کیلئے گیا اور طوفان میں پھنس گیا

علی گڑھ کے قانونی ماہر پروفیسر شاہ عالم نے کہا:’’جب مسلم امیدواروں کی بات آتی ہے تو ہمیشہ میرٹ کی بات کی جاتی ہے لیکن دوسروں کیلئے ایسا معیار لاگو نہیں ہوتا۔ مسلمانوں کو آدھی پہچان حاصل کرنے کیلئےدوگنا اہل ہونا پڑتا ہے۔ ‘‘انہوں نے مزید کہا:’’حتیٰ کہ اتر پردیش میں بھی، جہاں مسلمانوں کی آبادی۱۹؍ فیصد سے زائد ہے، ہائی کورٹ میں ان کی نمائندگی نہ ہونے کے برابر ہے۔ دو ججوں کی تقرری کافی نہیں ہے، یہ صرف آغاز ہے۔ ‘‘ان پانچ تقرریوں کے بعد الہ آباد ہائی کورٹ میں ججوں کی موجودہ تعداد۸۹؍ ہو گئی ہے جبکہ منظور شدہ تعداد ۱۶۰؍ ہے جس کا مطلب ہے کہ عدالت اب بھی ججوں کی شدید کمی سے دوچار ہے۔ عدالتی اصلاحات کے سرگرم کارکنوں نے نشاندہی کی ہے کہ مقدمات کی بھاری تعداد کو نمٹانے کیلئے ججوں کی تعداد میں اضافہ ضروری ہے لیکن ان کا کہنا ہے کہ اس رفتار میں نمائندگی کو قربان نہیں کیا جانا چاہئے۔ 

یہ بھی پڑھئے: غیر ملکی مصنوعات خریدنا یعنی دہشت گردی، تبدیلی مذہب, لوجہاد کی مالی امداد: یوگی

آل انڈیا مسلم جوڈیشل فورم کے مولانا حامد نے کہا:’’یہ تقرری تاریخی ہے لیکن ہم اس پر مطمئن نہیں ہو سکتے۔ ہم ہر برادری کی منصفانہ نمائندگی کیلئے مطالبہ جاری رکھیں گے۔ انصاف صرف دیا ہی نہیں جانا چاہئے، بلکہ نظر بھی آنا چاہئے کہ انصاف ایک ایسی عدالت سے آ رہا ہے جو ہندوستان کی تنوع کی نمائندگی کرتی ہے۔ ‘‘اترپردیش کے کئی مسلم گھرانوں میں جسٹس عبدالشاہد اور جسٹس ظفیر احمد کی تقرری کی خبر نے ایک خاموش خوشی کی لہر دوڑا دی ہے۔ پیلی بھیت سے ایک اسکول ٹیچر، اسماء بانو نے کہا:’’اب ہمارے بچوں کے سامنے اصل مثالیں موجود ہیں۔ ہم اکثر ان سے کہتے ہیں کہ پڑھو، محنت کرو، لیکن انہیں یہ دیکھنے کی بھی ضرورت ہے کہ ان جیسے لوگ اعلیٰ عہدوں پر موجود ہیں۔ یہ بہت اہم ہے۔ ‘‘نوجوان مسلم وکلاء کیلئے، جو اکثر تعصب اور امتیازی سلوک کا سامنا کرتے ہیں، یہ خبر حوصلہ افزا ہے۔ الہ آباد ہائی کورٹ کے ایک نوجوان وکیل سیف انور نے کہا:’’آج مجھے فخر محسوس ہو رہا ہے۔ ہم اس ملک کی خدمت کرنا چاہتے ہیں۔ ہم انصاف چاہتے ہیں۔ ہم صرف برابری کا موقع مانگتے ہیں۔‘‘

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK