Updated: December 20, 2025, 2:02 PM IST
| Seoul
جنوبی کوریا کے صدر لی جے میونگ نے بالوں کے جھڑنے کے مسئلے کو ایک سنگین سماجی اور نفسیاتی چیلنج قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس کا علاج قومی صحت انشورنس اسکیم کے تحت ہونا چاہئے۔ ان کے مطابق بالوں کے گرنے کو محض کاسمیٹک مسئلہ نہیں بلکہ ’’بقا کا معاملہ‘‘ سمجھا جانا چاہئے کیونکہ یہ خاص طور پر نوجوانوں کی ذہنی صحت، خود اعتمادی اور سماجی زندگی کو متاثر کرتا ہے۔ اس تجویز نے ملک میں خوبصورتی کے سخت معیارات اور جسمانی ظاہری شکل پر حد سے زیادہ زور کے حوالے سے ایک نئی بحث کو جنم دیا ہے۔
جنوبی کوریا کے صدر۔ تصویر: آئی این این
بالوں کا گرنا عام طور پر ایک ذاتی اور تکلیف دہ تجربہ سمجھا جاتا ہے، جسے اکثر حکومتیں صحتِ عامہ کا سنجیدہ مسئلہ نہیں مانتیں۔ تاہم، جنوبی کوریا کے صدر لی جے میونگ نے اس تصور کو چیلنج کرتے ہوئے گنجے پن کو ’’بقا کا معاملہ‘‘ قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ بالوں کے جھڑنے کے طبی علاج کو قومی صحت انشورنس اسکیم میں شامل کیا جانا چاہئے۔ سینئر حکام کے ساتھ ایک حالیہ اجلاس کے دوران صدر لی جے میونگ نے کہا کہ بالوں کے گرنے کے علاج کو ماضی کی طرح صرف ’’کاسمیٹک‘‘ مسئلہ سمجھنا درست نہیں۔ ان کے مطابق یہ مسئلہ افراد کی ذہنی صحت، سماجی حیثیت اور روزمرہ زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرتا ہے، اس لئے حکومت کو اس حوالے سے زیادہ سنجیدہ اور ہمدردانہ رویہ اختیار کرنا چاہئے۔ واضح رہے کہ جنوبی کوریا کی قومی صحت انشورنس اسکیم اس وقت اُن مریضوں کو سہولت فراہم کرتی ہے جن کا بالوں کا گرنا کسی طبی بیماری یا علاج، جیسے کینسر یا دیگر سنگین امراض، سے منسلک ہو۔ تاہم، موروثی یا جینیاتی بالوں کے گرنے کے علاج کو اس اسکیم میں شامل نہیں کیا گیا کیونکہ اسے زندگی کیلئے خطرہ نہیں سمجھا جاتا۔ وزیر صحت جیونگ ایون کیونگ نے منگل کو ایک اجلاس میں اس پالیسی کی وضاحت کرتے ہوئے یہی مؤقف دہرایا۔
یہ بھی پڑھئے: بلیواوریجن نے وہیل چیئرجرمن انجینئر کی خلائی پرواز مؤخر کی، کل صبح کا نیا شیڈول
اس کے باوجود صدر لی کا کہنا ہے کہ جنوبی کوریا جیسے معاشرے میں، جہاں خوبصورتی کے سخت اور غیر معمولی معیار رائج ہیں، گنجا پن ایک بدنما داغ بن چکا ہے۔ ان کے مطابق یہ مسئلہ خاص طور پر نوجوان نسل کیلئے شدید ذہنی دباؤ، خود اعتمادی میں کمی اور سماجی تنہائی کا باعث بن سکتا ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق، گزشتہ سال بالوں کے جھڑنے کے علاج کیلئے اسپتالوں کا رخ کرنے والے تقریباً ۲؍ لاکھ ۴۰؍ ہزار افراد میں سے ۴۰؍ فیصد کی عمریں ۲۰؍ یا ۳۰؍ سال کے درمیان تھیں۔ یہ اعداد و شمار اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ بالوں کا گرنا جنوبی کوریا میں محض بڑھتی عمر کا مسئلہ نہیں رہا بلکہ نوجوانوں میں بھی تیزی سے پھیل رہا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ جنوبی کوریا کی کاسمیٹک اور بالوں کے جھڑنے کے علاج کی صنعت دنیا کی سب سے بڑی مارکیٹس میں شمار ہوتی ہے، جو اس مسئلے کی وسعت اور معاشرتی اہمیت کو مزید نمایاں کرتی ہے۔
یہ بھی پڑھئے: ہنوکا کے موقع پر ۳۸۰ ؍سے زائد اسرائیلی آبادکار مسجدِ اقصیٰ میں گھس گئے
خیال رہے کہ یہ پہلا موقع نہیں کہ صدر لی جے میونگ نے یہ تجویز پیش کی ہو۔ انہوں نے ۲۰۲۲ء کی اپنی ناکام صدارتی انتخابی مہم کے دوران بھی بالوں کے جھڑنے کے علاج کو قومی صحت انشورنس میں شامل کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ تاہم، بعد ازاں انہیں پاپولزم اور عوامی ہمدردیاں سمیٹنے کی کوششوں پر تنقید کا سامنا کرنا پڑا، جس کے بعد یہ تجویز پس منظر میں چلی گئی تھی۔ موجودہ پیش رفت لی کی ٹیم کی جانب سے جمع کی گئی عوامی آرا پر مبنی ہے، جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ بالوں کے گرنے کا مسئلہ خاص طور پر نوجوان بالغ افراد میں گہری گونج رکھتا ہے۔ یہ بحث جنوبی کوریا میں جسمانی ظاہری شکل پر غیر معمولی سماجی دباؤ کو بھی اجاگر کرتی ہے۔ ۲۰۲۴ء میں نوجوان بالغوں پر کئے گئے ایک سروے کے مطابق ۹۸؍ فیصد شرکاء کا ماننا ہے کہ پرکشش ظاہری شکل رکھنے والے افراد کو ملازمت، سماجی تعلقات اور دیگر شعبوں میں واضح فوائد حاصل ہوتے ہیں۔
یہ بھی پڑھئے: یو این نے سابق عراقی صدر برہم صالح کو نیا ہائی کمشنر برائے مہاجرین منتخب کیا
صدر لی کی تازہ تجویز نے ایک بار پھر یہ سوال اٹھا دیا ہے کہ آیا ذہنی اور سماجی اثرات رکھنے والے مسائل کو بھی صحتِ عامہ کے دائرے میں شامل کیا جانا چاہئے، یا انہیں محض ذاتی یا کاسمیٹک مسائل قرار دے کر نظرانداز کیا جاتا رہے گا۔