کنیڈا کا اعلان، حالیہ دنوں میں برطانیہ اور فرانس کی جانب سے اسی طرح کے وعدوں کے بعد سامنے آیا ہے۔ فرانسیسی صدر میکرون نے اعلان کیا ہے کہ فرانس ستمبر میں فلسطین کو باضابطہ طور پر تسلیم کرے گا۔
EPAPER
Updated: July 31, 2025, 5:07 PM IST | Ottawa/Singapore
کنیڈا کا اعلان، حالیہ دنوں میں برطانیہ اور فرانس کی جانب سے اسی طرح کے وعدوں کے بعد سامنے آیا ہے۔ فرانسیسی صدر میکرون نے اعلان کیا ہے کہ فرانس ستمبر میں فلسطین کو باضابطہ طور پر تسلیم کرے گا۔
کنیڈا کے وزیر اعظم مارک کارنی نے بدھ کو اعلان کیا کہ کنیڈا ستمبر ۲۰۲۵ء میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے ۸۰ ویں اجلاس میں باضابطہ طور پر ریاست فلسطین کو تسلیم کرے گا۔ غزہ اور مغربی کنارے کی موجودہ صورتحال کو ”ناقابل برداشت“ قرار دیتے ہوئے کارنی نے کہا کہ اوٹاوا کا یہ اقدام دو ریاستی حل کیلئے اس کی دیرینہ حمایت کی توثیق کرنا ہے۔
کارنی نے صحافیوں کو بتایا، ”کنیڈا ستمبر ۲۰۲۵ء میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں ریاست فلسطین کو تسلیم کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔“ انہوں نے زور دیا کہ یہ فیصلہ برسوں کے تعطل شدہ مذاکرات کے بعد آیا ہے۔ انہوں نے کہا، ”کنیڈا طویل عرصے سے ایک آزاد اور خودمختار فلسطینی ریاست کیلئے پرعزم ہے جو اسرائیل کے ساتھ امن اور سلامتی سے ساتھ رہ سکے۔“
یہ بھی پڑھئے: نیویارک کانفرنس میں ۲؍ ریاستی فارمولے پر اتفاق
کارنی نے نوٹ کیا کہ اگرچہ کنیڈا کو امید تھی کہ ایک معاہدے کے ذریعے دو ریاستی حل نکل آئے گا، لیکن یہ طریقہ کار ”اب قابل عمل نہیں رہا۔“ انہوں نے مزید کہا کہ فلسطین کو تسلیم کرنے کا عمل فلسطینی اتھارٹی کی ”بہت ضروری اصلاحات“ کو یقینی بنانے پر منحصر ہے تاکہ موثر حکمرانی کو یقینی بنایا جا سکے۔ انہوں نے کہا کہ ”کنیڈا مضبوط جمہوری اداروں اور فلسطینی عوام کے زیادہ پرامن اور امید افزا مستقبل کیلئے شراکت کو مضبوط بنانے کی اپنی کوششوں میں اضافہ کرے گا۔“
کنیڈین وزیر اعظم نے اس بات پر بھی زور دیا کہ ایک خودمختار فلسطینی ریاست کا قیام، پائیدار امن کیلئے ضروری ہے۔ کارنی نے کہا کہ ”اسرائیل کیلئے استحکام کا کوئی بھی راستہ، ایک مستحکم اور خودمختار فلسطینی ریاست کا متقاضی ہے۔“ حکمرانی میں پرتشدد گروہوں کو مسترد کرنے کے کنیڈا کے موقف کو واضح کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ حماس کا مستقبل کی ریاست میں ”کوئی کردار نہیں“ ہوگا۔
کنیڈا کا یہ اعلان، حالیہ دنوں میں برطانیہ اور فرانس کی جانب سے اسی طرح کے وعدوں کے بعد سامنے آیا ہے۔ فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون نے فیصلہ کیا ہے کہ فرانس ستمبر میں اقوام متحدہ میں فلسطین کو باضابطہ طور پر تسلیم کرے گا، جبکہ برطانوی وزیر اعظم کیر سٹارمر نے اعلان کیا کہ برطانیہ بھی ایسا کرنے کیلئے تیار ہے جب تک کہ اسرائیل امن کی طرف اہم اقدامات نہ کرے۔
سنگاپور نے بھی فلسطین کو تسلیم کرنے کا اشارہ دیا
نیویارک میں اقوام متحدہ کی ایک اعلیٰ سطحی کانفرنس میں، سنگاپور نے بھی اشارہ دیا ہے کہ وہ اصولی طور پر فلسطین کو تسلیم کرنے کیلئے تیار ہے اگر یہ اقدام دو ریاستی حل کے مذاکرات کو آگے بڑھانے میں معاون ثابت ہوتا ہے۔ سنگاپور کے سفیر کیون چی اوک نے کہا کہ ان کا ملک، فلسطینی مریضوں کے علاج کیلئے ایک طبی ٹیم بھیجنے اور مستقل تصفیہ کے بعد غزہ کی تعمیر نو میں شرکت کرنے پر غور کر رہا ہے۔
چی اوک نے بیانات سے ہٹ کر ”عملی حمایت“ پر سنگاپور کے یقین کو اجاگر کیا۔ انہوں نے نوٹ کیا کہ سنگاپور نے ۱۷ ملین امریکی ڈالر سے زیادہ کی مالی امداد فراہم کی ہے اور فلسطینی شہری اداروں کیلئے کئی تربیتی پروگرام شروع کئے ہیں۔ سنگاپور ۲۰۲۶ء کیلئے نئے اقدامات پر بھی غور کر رہا ہے تاکہ فلسطینی سول پولیس فورس کو تربیت دی جا سکے اور حکمرانی میں نوجوان فلسطینی لیڈران کو تیار کیا جا سکے۔ چی اوک نے زور دیا کہ ”خود ارادیت کو موثر حکمرانی کے ساتھ جوڑا جانا چاہئے۔“ انہوں نے فلسطینی اتھارٹی سے اصلاحات جاری رکھنے اور تشدد کو مسترد کرنے کا مطالبہ کیا۔
غزہ میں نسل کشی
دریں اثنا، جنگ بندی مذاکرات تعطل کا شکار ہیں، اسرائیل اور امریکہ نے قطر میں مذاکرات سے اپنے وفود کو واپس بلالیا ہے۔ اسرائیل کا مؤقف ہے کہ وہ جنگ کو تب ہی ختم کرے گا جب حماس ہتھیار ڈال دے۔ یہ ایسی شرط ہے جسے حماس نے مسترد کردیا ہے۔ جنگ بندی کی بین الاقوامی اپیلوں کو مسترد کرتے ہوئے، اسرائیلی فوج نے ۷ اکتوبر ۲۰۲۳ء سے غزہ پر وحشیانہ حملے جاری رکھے ہیں جس کے نتیجے میں غزہ کی وزارت صحت کے مطابق اب تک ۶۰ ہزار سے زائد فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں جن میں زیادہ تر خواتین اور بچے ہیں۔ فلسطین کی وفا نیوز ایجنسی کے مطابق، تقریباً ۱۱ ہزار فلسطینی تباہ شدہ گھروں کے ملبے تلے دبے ہوئے ہیں۔ ماہرین کا خیال ہے کہ اموات کی اصل تعداد کہیں زیادہ ہو سکتی ہے اور ممکنہ طور پر ۲ لاکھ سے تجاوز کر سکتی ہے۔ اس نسل کشی کے دوران، اسرائیل نے محصور علاقے کے بیشتر حصے کو کھنڈرات میں تبدیل کر دیا ہے اور اس کی تمام آبادی کو بے گھر کر دیا ہے۔ اسرائیلی قابض افواج کی مسلسل بمباری کے باعث غزہ پٹی میں خوراک کی شدید قلت اور بیماریوں کے پھیلاؤ میں اضافہ ہوا ہے۔ گزشتہ نومبر میں، بین الاقوامی فوجداری عدالت نے اسرائیلی وزیراعظم بنجامن نیتن یاہو اور سابق وزیر دفاع یوو گیلنٹ کے خلاف غزہ میں جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم کے الزام میں گرفتاری کے وارنٹ جاری کئے تھے۔ اسرائیل اپنی جنگ کیلئے بین الاقوامی عدالت انصاف میں نسل کشی کے مقدمہ کا بھی سامنا کررہا ہے۔