Inquilab Logo Happiest Places to Work

اسرائیلی جیلوں میں فلسطینیوں کو جنسی تشدد، ہراسانی، بدسلوکی اور عصمت دری کا نشانہ بنایا جارہا ہے

Updated: July 31, 2025, 11:21 AM IST | Jerusalem

رملہ میں عیالون جیل میں واقع بدنام زمانہ راکیفیت سینٹر کے چھوٹے سیلوں میں ۲۵ قیدیوں کو ٹھونس دیا جاتا ہے، جہاں خوراک ناکافی اورسورج کی روشنی نہیں ہوتی اور قیدیوں کو بغیر کمبل کے فرش پر سونے پر مجبور کیا جاتا ہے۔

Photo: INN
تصویر: آئی این این

ایک فلسطینی وکیل نے اسرائیلی جیلوں میں غزہ کے قیدیوں پر جنسی تشدد، عصمت دری اور منظم بدسلوکی کی چونکا دینے والی واقعات سے پردہ اٹھایا اور خبردار کیا ہے کہ اسرائیل فلسطینیوں کو ڈرانے اور بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کیلئے ایسے ہتھکنڈوں کا استعمال کر رہا ہے۔ خبر رساں ایجنسی انادولو کو دیئے گئے ایک خصوصی انٹرویو میں، فلسطینی اتھارٹی کے کمیشن برائے قیدیوں کے امور کے وکیل، خالد مہاجنہ نے انکشاف کیا کہ اکتوبر ۲۰۲۳ء میں غزہ میں اسرائیلی جنگی کارروائیوں کے آغاز کے بعد سے، اسرائیل نے زیر زمین حراستی مراکز دوبارہ کھول دیئے ہیں جن میں وسطی اسرائیل کے رملہ میں عیالون جیل میں واقع بدنام زمانہ راکیفیت سینٹر بھی شامل ہے۔ یہ اصل میں ۱۹۴۸ء میں بنایا گیا تھا لیکن اسے ناقابل رہائش قرار دے کر بعد میں بند کر دیا گیا تھا۔ 

مہاجنہ نے کہا، ”غزہ کے سینکڑوں باشندوں اور بعد میں لبنانیوں اور شامیوں کو راکیفیت میں غیر انسانی حالات میں پھینک دیا گیا۔“ انہوں نے بتایا کہ ۶ افراد کیلئے بنے سیل میں ۲۵ قیدیوں کو ٹھونس دیا جاتا ہے، جہاں سورج کی روشنی نہیں ہوتی، خوراک ناکافی ہوتی ہے اور قیدیوں کو بغیر کمبل کے فرش پر سونے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ انہوں نے زور دیا کہ وکلاء کئی مہینوں کی قانونی جنگ کے بعد ہی انتہائی محدود ملاقاتیں کر سکے ہیں۔ انہوں نے وضاحت کی، ”ہر ملاقات ایک جنگ ہے۔ وکیل اور قیدی دونوں جیلروں سے گھرے ہوتے ہیں اور قیدی مزید تشدد کے خوف سے اپنے ساتھ ہونے والے واقعات بتانے سے گھبراتے ہیں۔“

یہ بھی پڑھئے: ٹرمپ کا غزہ میں ’حقیقی بھکمری‘ کا اعتراف، نیتن یاہو سے اختلاف، فوڈ سینٹرز قائم کرنے کا اعلان

فلسطینیوں پر جنسی تشدد اور جبر

مہاجنہ نے بتایا کہ سب سے زیادہ پریشان کن معاملات میں سے ایک اسرائیلی خاتون جیلر کا تھا جس نے ایک فلسطینی قیدی کو جیل کے صحن میں برہنہ کرکے اس کی عصمت دری کی اور اس کا مذاق اڑاتی رہی، جبکہ قیدی کے ہاتھ بندھے ہوئے تھے۔ مہاجنہ نے مزید بتایا کہ ”خاتون جیلر نے اسے ایک حراستی کیمپ کے صحن میں برہنہ کیا اور اس کی عصمت دری کی۔ وہ کئی منٹ تک ایسے طریقوں اور اوزاروں کا استعمال کرتی رہی جنہیں بیان نہیں کیا جا سکتا، اس کے افعال بربریت سے تجاوز کر گئے اور خالص سادیت کی حد تک پہنچ گئے۔“ مہاجنہ کے مطابق، یہ واقعہ ۲۰۰۴ء میں امریکی حملے کے دوران عراق کے بدنام زمانہ ابو غریب اسکینڈل سے بھی بدتر تھا۔

مہاجنہ کے مطابق، بدسلوکی کا مقصد معلومات نکالنا نہیں بلکہ اجتماعی سزا دینا ہے۔ انہوں نے کہا، ”چھوٹے سے چھوٹے جیلر کو بھی حکومت کی جانب سے غزہ کے قیدیوں کے ساتھ جو سلوک وہ چاہے، کرنے کی کھلی چھٹی ملی ہوئی ہے، ان سے پوچھ گچھ کرنے کیلئے نہیں بلکہ محض اذیت دینے اور ذلیل کرنے کیلئے انہیں جنسی تشدد کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ یہ سزائیں خاص طور پر جنسی زیادتی پر مرکوز ہے۔“ انہوں نے غزہ سے تعلق رکھنے والی خاتون قیدیوں کی شہادتیں پیش کیں جن میں عصمت دری، جنسی حملے اور جبر شامل تھا، ساتھ ہی ایسے مردوں کے معاملات بھی جنہیں جنسی اذیت کا نشانہ بنایا گیا۔ انہوں نے یاد دلایا کہ ”غزہ سے تعلق رکھنے والے ایک بزرگ قیدی کو باندھ کر برہنہ کیا گیا اور اس کے جسم میں چھڑی ڈالی گئی۔ انہوں نے اس کی فلم بنائی اور فخر سے آپس میں شیئر کی۔“ 

یہ بھی پڑھئے: ’’غزہ کے عوام نے جو دکھ برداشت کئے، وہ پوری امت نہیں کرسکی‘‘

ایک اور معاملہ میں کینسر کے ایک نوجوان مریض کو گھسیٹ کر زبردستی ٹوائلٹ سے پانی پینے پر مجبور کیا گیا صرف اس لئے کہ اس نے صاف پانی مانگا تھا۔ مہاجنہ نے کہا کہ اسرائیلی ڈاکٹر بھی اس بدسلوکی میں ملوث ہیں۔ ”میں نے ایک قیدی کے بارے میں سنا جس کا ہاتھ بغیر بے ہوشی کے کاٹ دیا گیا تھا کیونکہ مہینوں تک زنجیروں میں جکڑے رہنے سے شدید گلن پیدا ہو گئی تھی۔ اسی وجہ سے دوسرے بھی ہلاک ہوچکے ہیں۔“

فلسطینیوں پر تشدد کے پیچھے اسرائیل کے مقاصد

مہاجنہ کا کہنا ہے کہ ”اسرائیل کا قیدیوں کی عصمت دری اور انہیں اذیت دینے کے پیچھے دو مقاصد ہیں۔ پہلا مقصد دنیا کو چیلنج کرنا ہے؛ اسرائیل کو انسانی حقوق کی تنظیموں یا بین الاقوامی عدالتوں کی کوئی پرواہ نہیں۔ دوسرا مقصد فلسطینیوں کو ڈرانا ہے، انہیں یہ دکھانا کہ جو بھی مزاحمت کرے گا اسے ناقابل تصور اذیت کا سامنا کرنا پڑے گا، تاکہ پوری نسلوں کو توڑا جا سکے۔“

یہ بھی پڑھئے: اسرائیلی گروپس کا ’’غزہ نسل کشی‘‘ بند کرنے کا مطالبہ، اپنی ہی حکومت کی مذمت

انہوں نے نوٹ کیا کہ بدنام زمانہ ”غیر قانونی جنگجو قانون“، جو ۲۰۰۲ء میں منظور کیا گیا تھا لیکن کئی سالوں سے غیر فعال تھا، اکتوبر ۲۰۲۳ء کے بعد جارحانہ انداز میں نافذ کیا گیا ہے، اس قانون سے اسرائیل کو فلسطینیوں کے ساتھ ساتھ لبنانیوں اور شامیوں کو بغیر کسی الزام کے غیر معینہ مدت تک حراست میں رکھنے کی اجازت ملتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ جنگ کے آغاز سے اب تک، اسرائیل نے اپنی انتظامی حراستی پالیسی کے تحت ۱۰ ہزار سے زیادہ فلسطینیوں کو بغیر مقدمہ یا الزام کے حراست میں لیا ہے، جن میں ۵۰۰ بچے بھی شامل ہیں۔

اسرائیلی حراستی مراکز، موت کے مراکز میں تبدیل

اسرائیلی عدالتوں میں منظم رکاوٹوں کے باوجود، مہاجنہ نے کہا کہ ان کی ٹیم شکایات اور اپیلیں دائر کرتی رہتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ”کچھ قیدیوں نے مہینوں تک اپنے انڈر ویئر نہیں بدلے۔ حتیٰ کہ یہ بنیادی حق بھی چھین لیا گیا ہے۔ اسرائیلی عدالتیں بھی تشدد کی مشینری کا حصہ ہیں۔“ انہوں نے تصدیق کی کہ اسرائیل بین الاقوامی عدالتوں میں ممکنہ دیوانی مقدمات سے خوفزدہ ہے، خاص طور پر ان رہا ہونے والے قیدیوں سے جنہوں نے جنسی تشدد اور اذیت کا سامنا کیا۔

یہ بھی پڑھئے: ہر ۳؍میں سےایک فلسطینی کئی دنوں سے بھوکا:یو این، ۲۳ لاکھ کی آبادی کیلئے یومیہ ۶۰۰؍ ٹرک امدادکی ضرورت

مہاجنہ نے جنوبی اسرائیل کے بدنام زمانہ سدی تیمان کیمپ میں غزہ کے قیدی پر جنسی زیادتی کے الزام میں ۵ اسرائیلی فوجیوں کے کیس کا حوالہ دیا، اگرچہ انہوں نے خبردار کیا کہ ان پر آزاد رہتے ہوئے مقدمہ چلایا جا رہا ہے اور وہ ہلکی سزاؤں کے ساتھ بچ سکتے ہیں۔ انہوں نے ایک سخت وارننگ کے ساتھ بات ختم کی: ”ہر قیدی جس سے میں ملتا ہوں، وہ مجھے ایک ہی بات کہتا ہے: ہمیں ان موت کے مراکز سے بچاؤ۔“

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK