چین نے خلائی سپر کمپیوٹر بنانے کیلئے اپنی تھری باڈی کمپیوٹنگ کنسٹلیشن کے پہلے۱۲؍ سیٹلائٹ لانچ کیے، جو کہ مدار میں مصنوعی ذہانت ( اے آئی) سے چلنے والی ڈیٹا پروسیسنگ اور عالمی ٹیکنالوجی مقابلے میں ایک اہم پیش رفت ہے۔
EPAPER
Updated: May 25, 2025, 5:42 PM IST | Beijing
چین نے خلائی سپر کمپیوٹر بنانے کیلئے اپنی تھری باڈی کمپیوٹنگ کنسٹلیشن کے پہلے۱۲؍ سیٹلائٹ لانچ کیے، جو کہ مدار میں مصنوعی ذہانت ( اے آئی) سے چلنے والی ڈیٹا پروسیسنگ اور عالمی ٹیکنالوجی مقابلے میں ایک اہم پیش رفت ہے۔
۴؍ مئی کو چین نے کمپیوٹنگ کے مستقبل کی طرف ایک بڑا قدم اٹھایا جب اس نے اپنی پر تھری باڈی کمپیوٹنگ کنسٹلیشن کے ابتدائی ۱۲؍سیٹلائٹس لانچ کیے، جو دنیا کی پہلی کوشش ہے کہ خلاء میں ایک سپر کمپیوٹر نیٹ ورک بنایا جائے۔ ژیاکوان سیٹلائٹ لانچ سینٹر سے لانگ مارچ۲؍ ڈی راکٹ پر لانچ کیے گئے، ہر سیٹلائٹ سمارٹ کمپیوٹنگ آلات اور لیزر کی تیزرفتار بین السیٹلائٹ مواصلاتی رابطوں سے لیس ہے، جو مدار میں ڈیٹا پروسیسنگ کا ایک نیا دور شروع کر رہا ہے۔ جب یہ کنسٹلیشن مکمل طور پر فعال ہو جائے گا، تو یہ۱۰۰۰؍ پیٹا آپریشنز فی سیکنڈ ( پی او پی ایس ) فراہم کرے گا — جو زمین کے سب سے طاقتور سپر کمپیوٹرز جیسے کہ امریکی ایل کیپیٹن کے برابر ہے، جس کی درجہ بندی۱؍ اعشاریہ ۷۲؍ پی او پی ایس ہے۔اسے منفرد بنانے والی چیزنہ صرف اس کی کمپیوٹنگ طاقت ہے، بلکہ یہ ہے کہ یہ کہاں ہو رہی ہے۔ روایتی سیٹلائٹس کے برعکس جو معلومات کو زمین پر تجزیہ کے لیے بھیجتے ہیں، تھری باڈی سیٹلائٹ اے آئی پر مبنی نظاموں کے ساتھ خام ڈیٹا پر فیصلے خلاء میں ہی لیں گے، جن میں۸؍ بلین پیرامیٹرز ہیں۔ معلومات سیٹلائٹس کے درمیان۱۰۰؍ گیگابٹ فی سیکنڈ کی الٹرا ہائی سپیڈ لیزر لنکس کے ذریعے منتقل ہوں گی، جس سے زمینی بنیادی ڈھانچے پر انحصار کم ہو گا اور بہت بڑی مقدار میں معلومات کو پروسیس کرنے اور جواب دینے کا وقت کم ہو جائے گا۔
یہ بھی پڑھئے: امریکہ: سابق فوجیوں کی یو این کی عمارت کے سامنے غزہ کیلئے ۴۰؍ روزہ بھوک ہڑتال
دفاع اور سائبر سیکیورٹی کے ماہر اور جنرل ڈائنامکس کے سابقہ ہیڈ سوبیمل بھٹاچاریہ کا کہنا ہے کہ یہ لانچ عالمی ٹیکنالوجی کی حرکیات کے لیے ایک سنگ میل ہے۔ ’’چین کا۱۲؍ سیٹلائٹس کا لانچ خلائی بنیاد پر سپر کمپیوٹنگ نیٹ ورک کے لیے ایک گیم چینجر ہے،بھٹاچاریہ نے ایف ای کو بتایاکہ ’’یہ تھری باڈی کمپیوٹنگ کنسٹلیشن اپنی اے آئی سے چلنے والی، ریئل ٹائم ڈیٹا پروسیسنگ کے ساتھ زمین کے سب سے بڑے سپر کمپیوٹرز کو پیچھے چھوڑ سکتی ہے۔ یہ عالمی ٹیکنالوجی مقابلےکیلئے ایک نیا ہدفہے، خاص طور پر چین اور امریکہ کے درمیانچین ایک مداری کمپیوٹر سسٹم کی بنیاد رکھ رہا ہے جو موسمیاتی سائنس اور آفات سے نجات سے لے کر فلکیات اور ریئل ٹائم فوجی کارروائیوں تک ہر چیز کو متاثر کرے گا۔ درحقیقت، خلاء میں حساس یا اسٹریٹجک معلومات کی کمپیوٹنگ کے سیکیورٹی مضمرات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن اس منصوبے میں سبز ٹیکنالوجی کی کامیابیوں کی بھی صلاحیت ہے۔زمینی ڈیٹا سینٹرز بجلی کے بھوکے دیو ہیں، ان کے ذریعے ایک سال میں استعمال کی جانے والی بجلی جاپان کی کل بجلی کی کھپت کے برابر ہے۔ یہ مداری ڈیٹا سینٹرز شمسی توانائی سے چل سکتے ہیں اور خلاءہی میں قدرتی طور پر گرمی خارج کر کے ٹھنڈے ہو سکتے ہیں، جس سے بڑے ایئر کنڈیشننگ سسٹمز کی ضرورت ختم ہو جاتی ہے جو اخراجات کو بڑھاتے ہیں۔ہارورڈ کے خلائی مورخ اور ماہر فلکیات جوناتھن میک ڈوول کے مطابق اس قسم کی کمپیوٹنگ کاربن فوٹ پرنٹ کو نمایاں طور پر کم کر سکیں گی۔
جہاں تک ہندوستان کا تعلق ہے، یہ ہندوستانی سائنسدانوں اور پالیسی سازوں کے لیے ایک واضح پیغام ہے،بھٹاچاریہ نے خبردار کیاکہ ہمیں مشترکہ ٹیکنالوجی معیارات کیلئے کواڈ اتحادیوں کے ساتھ مل کر کام کرنا پڑ سکتا ہے اور سائبر سیکیورٹی پر دوگنا زور دینا ہو گا۔ ہندوستان اپنی سستی خلائی مشنوں کی تاریخ اور ٹیکنالوجی کے ہنر کے وسیع ذخیرے کے ساتھ، بہت بڑی صلاحیت ر کھتا ہے اور اسے اس سمت میں از خود آگے بڑھنا چاہیے، اور عالمی سطح پر پائیدار خلائی معیارات کی قیادت کرنی چاہیے۔ چین کے اس تکنیکی انقلابی قدم کےتعلق سے خدشات کابھی اظہار کیا جا رہا ہے،جیسے خلاء میں پروسیس ہونے والی معلومات پر کس کا کنٹرول ہے؟ اگر یہ مداری سپر کمپیوٹر کا فوجی استعمال ہو تو کیا ہوگا؟ کیا خلاء نہ صرف میزائلوں بلکہ مشین لرننگ کیلئے اگلا میدان بن جائے گا۔