عمر خالد نے عدالت کو بتایا کہ دہلی فسادات کیس میں پولیس نے انہیں غیر منصفانہ طور پر نشانہ بنایا ہے جبکہ فسادات کو بھڑکانے میں مبینہ طور پر بڑا کردار ادا کرنے والے دیگر افراد کو ملزم کے طور پر نامزد نہیں کیا گیا۔
EPAPER
Updated: October 10, 2025, 8:08 PM IST | New Delhi
عمر خالد نے عدالت کو بتایا کہ دہلی فسادات کیس میں پولیس نے انہیں غیر منصفانہ طور پر نشانہ بنایا ہے جبکہ فسادات کو بھڑکانے میں مبینہ طور پر بڑا کردار ادا کرنے والے دیگر افراد کو ملزم کے طور پر نامزد نہیں کیا گیا۔
گزشتہ پانچ برسوں سے قید کارکن عمر خالد نے جمعرات کو دہلی کی ایک عدالت کو بتایا کہ ۲۰۲۰ء کے فسادات کی بڑی سازش کے معاملے میں پولیس نے انہیں غیر منصفانہ طور پر نشانہ بنایا ہے جبکہ فسادات کو بھڑکانے میں مبینہ طور پر بڑا کردار ادا کرنے والے دیگر افراد کو ملزم کے طور پر نامزد نہیں کیا گیا۔
خالد کے وکیل نے یہ بیان کارکرڈوما کورٹ کے ایڈیشنل سیشن جج سمیر باجپائی کے سامنے ان کے خلاف الزامات طے کرنے کی مخالفت کرتے ہوئے دیا۔ واضح رہے کہ خالد کو ستمبر ۲۰۲۰ء میں فروری ۲۰۲۰ء میں شمال مشرقی دہلی میں ہوئے فسادات کے سلسلے میں گرفتار کیا گیا تھا۔ شہریت ترمیمی ایکٹ کے حامیوں اور مخالفین کے درمیان پھوٹ پڑنے والے اس تشدد میں ۵۳ افراد ہلاک ہوئے تھے جن میں زیادہ تر مسلمان تھے۔
یہ بھی پڑھئے: سنبھل میں ۱۹۷۸ء کے فساد کے ملزم کے کولڈ اسٹوریج پر بلڈوزر
دیگر کارکنوں کے ساتھ خالد پر غیر قانونی سرگرمیاں (روک تھام) ایکٹ، انڈین پینل کوڈ، عوامی املاک کو نقصان پہنچانے کے روک تھام ایکٹ اور اسلحہ ایکٹ کے تحت الزامات عائد کئے گئے ہیں۔ دہلی پولیس کا الزام ہے کہ یہ فسادات وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت کو بدنام کرنے کی ایک بڑی سازش کا حصہ تھے جسے اینٹی-سی اے اے احتجاج کے منتظمین، جن میں خالد بھی شامل تھے، نے تیار کیا تھا۔
خالد کی نمائندگی کرنے والے ایڈوکیٹ تری دیپ پائس نے دلیل دی کہ ”اسی طرح کے حالات“ والے دیگر افراد کو ملزم کے طور پر نامزد نہیں کیا گیا۔ چارج شیٹ میں، مبینہ طور پر احتجاج کو متحرک کرنے کیلئے بنائے گئے وہاٹس ایپ گروپس جیسے ’دہلی پروٹیسٹ سپورٹ گروپ‘ میں خالد کی شمولیت کا ذکر کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ خالد پر کارکن شرجیل امام کے ساتھ مل کر ”جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کے مسلم طلبہ“ گروپ کی رہنمائی کرنے کا ذکر ہے تاکہ تشدد کو بھڑکایا جا سکے۔ پائس نے سوال کیا کہ ان گروپس کے کسی بھی ایڈمن پر الزام کیوں نہیں لگایا گیا۔ انہوں نے نشان دہی کی کہ ۸ دسمبر ۲۰۱۹ء کو جنگپورا میں ہونے والی ایک ”سازشی میٹنگ“ میں کارکن-سیاستدان یوگیندر یادو اور انسانی حقوق کے کارکن ندیم خان بھی شامل تھے۔ انہوں نے پوچھا کہ اگر دوسرے بھی اسی میٹنگ میں شامل تھے تو صرف خالد پر ہی انسداد دہشت گردی کے قانون کے تحت مقدمہ کیوں چلایا گیا۔
یہ بھی پڑھئے: بہیال، گجرات: گربا تقریب پر پتھراؤ کے بعد اقلیتوں کے خلاف بلڈوزر کارروائی
عدالت نے ابھی تک الزامات طے کرنے کا فیصلہ نہیں کیا ہے۔ خالد مسلسل یہ کہتے آئے ہیں کہ ان کے خلاف پولیس کی کارروائی منتخب اور سیاسی طور پر حوصلہ افزائی پر مبنی ہے۔