• Sun, 28 December, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

دہلی فساد: میکانکی تفتیش، غیر معتبر بیانات، ۵؍ مسلم مقدمے سے بری

Updated: December 28, 2025, 1:01 PM IST | New Delhi

دہلی فساد کے ایک مقدمے میں دہلی کی ککڑ ڈوما عدالت نے غیر معتبر بیانات کا حوالہ دیتے ہوئے ۵؍ مسلمانوں کو فساد کے الزام سے بری کردیا، ایڈیشنل سیشن جج پروین سنگھ نے دہلی پولیس کی تفتیش کو ’میکانکی‘ قرار دیا اور اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا کہ پولیس گواہوں کے بیانات ’غیر معتبر‘ ہیں۔

Photo: INN
تصویر: آئی این این

۲۰۲۰ء کے شمال مشرقی دہلی فسادات معاملے میں حال ہی میں پانچ مسلمانوں کو بری کر دیا گیا ہے۔ دارالحکومت میں۵۳؍ افراد (جن میں سے زیادہ تر مسلمان تھے) کی موت کا باعث بننے والے فسادات کے دوران بھجن پورا علاقے میں ایک پیٹرول پمپ کے قریب پتھراؤ اور آتشزدگی میں ملوث ہونے کے الزامات سےککڑڈوماکورٹ کے ایڈیشنل سیشن جج (اے ایس جے) پروین سنگھ نے ان پانچوں کو بری کر دیا۔اے ایس جے سنگھ نے دہلی پولیس کی تفتیش کو ’میکانکی‘ قرار دیا اور اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا کہ پولیس گواہوں کے بیانات ’غیر معتبر‘ ہیں۔

یہ بھی پڑھئے: ترپورہ: مسجد کی بے حرمتی، شراب کی بوتلیں، شرانگیز نعرے، بجرنگ دل کا جھنڈا برآمد

واضح ہے کہ ان پانچ افراد عبدالستار، عریف ملک، خالد، تنویر اور حنین پر پتھراؤ اور آتشزدگی میں فعال کردار ادا کرنے کا الزام تھا۔ جمعہ کو میڈیا رپورٹس کے مطابق، شکایت کنندہ ترون، جو اس واقعے میں زخمی ہوا تھا، نے الزام لگایا تھا کہ ایک ہجوم نے اسے ڈنڈوں سے مارا اور اس کی موٹر سائیکل کو آگ لگا دی۔مقدمے کی سماعت کے دوران، استغاثہ نے بنیادی طور پر تین پولیس گواہوں کی گواہی پر انحصار کیا، جبکہ ملزمین کے خلاف الزامات کی تائید کے لیے کوئی آزاد گواہوں سے پوچھ گچھ نہیں کی گئی۔ اے ایس جے سنگھ نے۱۱؍ دسمبر کے اپنے حکم میں کہا،’’پی ڈبلیو۴؍ (پولیس گواہ) کی واحد گواہی، اس حقیقت کی روشنی میں کہ دوسرے دو گواہوں کو قابل اعتماد نہیں پایا گیا ہے، اور اس بات کا امکان ہے کہ مقدمہ حل کرنے کے لیے تفتیش میکانکی طور پر کی گئی ہو، ان جرائم کے لیے ملزمین کو سزا دینے کے لیے کافی نہیں ہوگی۔‘‘

یہ بھی پڑھئے: سیکڑوں کشمیری۲۰۱۹ء سے جیلوں میں پڑے ہیں: محبوبہ مفتی کا دعویٰ

بعد ازاں دی انڈین ایکسپریس کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اے ایس جے سنگھ نے پولیس کی روزانہ کی اندراج کے ذریعے جانچ کے بعد مزید کہا، ’’ان دونوں گواہوں کے مطابق، وہ اور بھجن پورا پولیس اسٹیشن کے دیگر عملے کے ارکان پولیس اسٹیشن سے نور الہی کے لیے نکلے، وہ صبح تقریباً ۹؍ سے ۱۰؍بجے نور الہی پہنچے اور تقریباً ایک بجے، ایک فون کال کے ذریعے ڈیوٹی افسر نے انہیں اور دوسروں کو بھجن پورا پیٹرول پمپ پہنچنے کی ہدایت کی۔‘‘ ان کاپولیس اسٹیشن سے روانہ ہوناایک بجے تھا اور اس لیے، وہ ایک ہی وقت میں بھجن پورا پیٹرول پمپ پہنچنے کی ہدایت پر عمل پیرا نہیں ہو سکتے تھے کیونکہ وہ پہلے نور الہی گئے تھے۔تاہم عدالت نے اس حقیقت کی طرف بھی اشارہ کیا کہ پیٹرول پمپ کے ایک ملازم نے کہا تھا کہ واقعے کے دن پیٹرول پمپ ساڑھے ۱۲؍ بجے تک بند ہو گیا تھا۔جبکہ شکایت کنندہ نے کہا تھا کہ وہ اپنی گاڑی میں ایندھن بھروانے کے لیے۲؍ بجے پیٹرول پمپ گیا تھا۔ اے ایس جے سنگھ نے کہا، لہذا، اگر پی ڈبلیو۷؍ کی گواہی پر غور کیا جائے، تو پیٹرول پمپ ساڑھے ۱۲؍بجے کے بعد کام نہیں کر رہا تھا ۔ تاہم، پی ڈبلیو۱۴؍ کے مطابق، وہ تقریباً۲؍ بجے کے قریب پیٹرول پمپ پہنچا اور پیٹرول لینے کے لیے قطار میں لگ گیا۔ پی ڈبلیو۷؍ کی گواہی کی روشنی میں یہ ناممکن لگتا ہے ۔‘‘انہوں نے مزید کہا،’’یہ عجیب بات ہے کہ آئی او (تفتیشی افسر) اس کیس کے گواہوں سے اس معاملے میں ملزمین کے شامل ہونے کے بارے میں نہیں پوچھے گا۔‘‘

یہ بھی پڑھئے: کرسمس پر بھگوا تنظیموں کی دھینگا مشتی ،مودی سرکار خاموش تماشائی

دی انڈین ایکسپریس رپورٹ کے مطابق، ضلعی پولیس نے فسادات سے متعلق فساد، آتشزدگی اور غیر قانونی اجتماع کے۶۹۵؍ مقدمات درج کیے تھے، جن میں سے۸۰؍ فیصد مقدمات جو طے پا چکے ہیں ان میں ملزمین کو رہاکر دیا گیا۔کئی مسلمان ملزمین کو ثبوتوں کی کمی کی وجہ سے فسادات کیس میں بری کر دیا گیا ہے۔ گزشتہ سال اگست میں عدالت نے پایا کہ ملزمین کے خلاف کوئی ٹھوس ثبوت نہیں تھا، اور استغاثہ کا کیس غیر معتبر گواہیوں کے بیانات پر مبنی تھا۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK