گلوبل صمود فلوٹیلا اسرائیل کے ذریعے حراست میں لے کر ملک بدر کئے گئے کارکنوں نے بتایا کہ ان کے ساتھ جانوروں جیسا سلوک کیا گیا، اسرائیلی فوجی ہمیں مارتے تھے، ہم پر ہنستے تھے، ہمیں گالیاں دیتے تھے۔
EPAPER
Updated: October 05, 2025, 10:09 PM IST | Istanbul
گلوبل صمود فلوٹیلا اسرائیل کے ذریعے حراست میں لے کر ملک بدر کئے گئے کارکنوں نے بتایا کہ ان کے ساتھ جانوروں جیسا سلوک کیا گیا، اسرائیلی فوجی ہمیں مارتے تھے، ہم پر ہنستے تھے، ہمیں گالیاں دیتے تھے۔
اسرائیلی فوج کی جانب سےغزہ جانے والی امدادی بیڑے (فلوٹیلا) کو روکنے اور ملک بدر کرنے کے بعد سنیچر کو۵؍ اکتوبر۲۰۲۵ء کو استنبول پہنچنے والے بین الاقوامی کارکنوں نے الزام لگایا کہ ان پر تشدد کیا گیا اور ان کے ساتھ ’’جانوروں جیسا سلوک‘‘ کیا گیا۔واضح رہے کہ گلوبل صمود فلوٹیلا گزشتہ مہینے جنگ سے تباہ حال غزہ تک امداد پہنچانے کے لیے روانہ ہوا تھا، لیکن اسرائیل نے غزہ پہنچنے سے قبل ہی ان کشتیوں کو روک دیا اور۴۵۰؍ سے زائد افراد کو حراست میں لے لیا، جنہیں جمعہ سے ملک بدر کیا جارہا ہے۔ سنیچر کو ۱۳؍ ممالک کے۱۳۷؍ کارکن استنبول پہنچے، جن میں۳۶؍ ترکی شہری بھی شامل ہیں۔ اٹلی کے لومباردیہ کے پاؤلو رومانو نے استنبول ایئرپورٹ پر اے ایف پی کو بتایا، ’’ہمیں فوجی جہازوں کی ایک بہت بڑی تعداد نے گھیر لیا۔کچھ کشتیوں پر واٹر کینن سے بھی فائر کیا گیا۔ تمام کشتیاں مسلح فوجیوں نے اپنے قبضے میںلے لیں اور ساحل پر لے آئے۔‘‘ انہوں نے کہا، ’’ انہوں نے ہمیں گھٹنوں کے بل جھکا دیا، چہرے نیچے کی جانب۔ اور اگر ہم حرکت کرتے، تو وہ ہمیں مارتے تھے۔ وہ ہم پر ہنستے تھے، ہمیں گالیاں دیتے تھے اور مارتے تھے۔‘‘ان کا کہنا تھا، ’’وہ نفسیاتی اور جسمانی دونوں قسم کاتشدد کر رہے تھے۔
یہ بھی پڑھئے: گلوبل صمود فلوٹیلا میں شامل امریکی کارکن ٹامی کا اسرائیلی حراست میں قبول اسلام
فلوٹیلا پر سوار تقریباً ۴۵؍ کشتیوں میں شامل سیاست دانوں اور کارکنوں میں سویڈش ماحولیاتی کارکن گریٹا تھنبرگ بھی تھیں۔مسٹر رومانو نے کہا کہ’’ اسرائیلی فوجیوں نے انہیں مجبور کرنے کی کوشش کی کہ وہ قبول کریں کہ وہ غیر قانونی طور پر اسرائیل میں داخل ہوئے تھے۔ لیکن ہم کبھی غیر قانونی طور پر اسرائیل داخل نہیں ہوئے۔ ہم بین الاقوامی پانیوں میں تھے اور وہاں ہمارا حق تھا۔‘‘انہوں نے بتایا کہ لینڈنگ کے بعد، انہیں ایک جیل لے جایا گیا اور وہاں بغیر باہر جانے کی اجازت کے رکھا گیا اور انہیں بوتل بند پانی تک نہیں دیا گیا۔ انہوں نے کہا، ’’وہ رات کے دوران دروازہ کھولتے اور بندوقیں دکھا کر ہم پر چلاتے تاکہ ہمیں ڈرایا جا سکے۔ ہمارے ساتھ جانوروں جیسا سلوک کیا گیا۔
ملائیشیا کی۲۸؍ سالہ کارکن الیا بلقیس نے کہا کہ ’’کشتیوں کو اسرائیل کی جانب سے روکنا ’’بدترین تجربہ‘‘ تھا۔انہوں نے کہا، ’’ہمارے ہاتھ پشت پر باندھ دیے گئے تھے، ہم چل نہیں سکتے تھے، ہم میں سے کچھ کو زمین پر منہ کے بل لیٹنے پر مجبور کیا گیا، پھر ہمیں پانی سے محروم رکھا گیا، اور ہم میں سے کچھ کو دوائیوں سے محروم رکھا گیا۔‘‘
یہ بھی پڑھئے: امریکہ میں ایک سال میں۱۵؍ ہزار گرجا گھروں کے بند ہونے کا خطرہ: رپورٹ
ترکی نے فلوٹیلا کو روکنے کو ’’دہشت گردی کا عمل‘‘ قرار دیا ہے اور جمعرات کو کہا تھا کہ اس نے اس کی تحقیقات کا آغاز کر دیا ہے۔ترکی کے وزیر خارجہ حکان فیدان نے ایکس پر ایک پوسٹ میں کارکنوں کو ’’بہادر افراد‘‘قرار دیتے ہوئے ان کی تعریف کی جنہوں نے ’’انسانیت کے ضمیر کو آواز دی‘‘اور کہا کہ انقرہ اس بات کو یقینی بنائے گا کہ اس کے تمام شہری واپس آجائیں۔اسرائیلی وزارت خارجہ نے ایکس پر ایک پوسٹ میں تصدیق کی کہ ’’صمود فلوٹیلا کے۱۳۷؍ مزید کارکنوں کو آج ترکی بھیج دیا گیا۔‘‘اطالوی صحافی لورنزو ڈی آگوسٹینو، جو فلوٹیلا پر اس مشن کی کوریج کے لیے سوار تھے، نے کہا کہ ’’انہیں بین الاقوامی پانیوں میں اس وقت اغوا کیا گیا جب وہ غزہ سے۵۵؍ میل (۸۸؍ کلومیٹر) دور تھے۔‘‘انہوں نے کہا، ’’یہ جیل میں گزارے ہمارے دوبدترین دن تھے۔ ہم اب فلسطین کی حمایت کرنے والے بین الاقوامی عوام کے دباؤ کے باعث باہر ہیں۔‘‘