فرانسیسکا البانیزی نے امریکی پابندیوں کا سامنا کرتے ہوئے غزہ کے خدشات فرانسیسی پارلیمنٹ میں پیش کر دیے،ساتھ ہی اراکین سے ملاقاتیں کرکے فلسطین کی صورت حال پر بھی روشنی ڈالی۔
EPAPER
Updated: November 18, 2025, 10:09 PM IST | Paris
فرانسیسکا البانیزی نے امریکی پابندیوں کا سامنا کرتے ہوئے غزہ کے خدشات فرانسیسی پارلیمنٹ میں پیش کر دیے،ساتھ ہی اراکین سے ملاقاتیں کرکے فلسطین کی صورت حال پر بھی روشنی ڈالی۔
فرانسیسکا البانیز نے امریکی پابندیوں کا سامنا کرتے ہوئے غزہ کے خدشات فرانسیسی پارلیمنٹ میں پیش کر دیے،ساتھ ہی اراکین سے ملاقاتیں کرکے فلسطین کی صورت حال پر بھی روشنی ڈالی۔پیر سے شروع ہونے والے اس اجلاس میں البانیزی نے بتایا کہ وقت گزرنے کے ساتھ قانون کے بارے میں ان کی سمجھ کیسے بدلی۔ انہوں نے کہا، ’’تیس سال قبل ، میں قانون کو یقینی اور مستحکم سمجھتی تھی۔ عمر اور قانون پر عملدرآمد کے ساتھ، میں نے محسوس کیا کہ یہ ایک ایسا پیشہ ہے جو سچائی اور انصاف کی خدمت کرتا ہے لیکن اس میں ایسے انتخاب بھی شامل ہوتے ہیں جو دوسروں کی آزادی کو متاثر کر سکتے ہیں۔‘‘انہوں نے زور دیا کہ ان کی وابستگی اس یقین سے پیدا ہوتی ہے کہ ’’فلسطینیوں کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے وہ انصاف کے بالکل برعکس ہے۔‘‘البتہ انہوں نے غیر جانبداری کی اہمیت پر زور دیا، جو کہ بے حسی نہیں بلکہ بغیر کسی ذاتی تعصب کے شواہد کا جائزہ لینے کا ایک طریقہ ہے۔البانیز نے بین الاقوامی قانون، یورپ کے سیاسی ماحول اور فلسطین پر اپنی رپورٹیں شائع کرنے کے بعد انہیں درپیش ذاتی نتائج پر بھی تفصیلی بات کی۔فرانس کی بائیں بازو کی جماعت لا فرانس انسومائز (ایل ایف آئی) کے اراکین نے البانیزی سے ملاقات کی، جس میں اسرائیل کے خلاف جنگ میں فرانس کے موقف پر جاری کشیدگی کے درمیان بین الاقوامی قانون، یورپ کے سیاسی موقف اور فلسطین کی صورت حال پر تبادلہ خیال کیا گیا۔البانیز نے یورپ کے سیاسی اور میڈیا کے کچھ حصوں پر تنقید کرتے ہوئے استدلال کیا کہ دونوں اسرائیلی ریاست کی طرف سے طے شدہ اسٹریٹجک لائنز‘‘ سے شدید متاثر ہوئے ہیں۔
یہ بھی پڑھئے: ’یلو لائن‘ سے آگے علاقوں پر قبضہ کیلئے اسرائیل کی بڑے حملے کی دھمکی
انہوں نے کہا کہ اطالوی پارلیمنٹ کے اراکین کااسرائیلی فوجی صنعت سے وابستہ تنظیموں کے اخراجات پر اسرائیل کا سفر، معمول کی بات نہیں ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ کچھ سیاسی اور پریس کے بیانات ایک نوآبادیاتی ذہنیت سے تشکیل پاتے ہیں جس کا کبھی پوری طرح سامنا نہیں کیا گیا۔‘‘ انہوں نے اسرائیلی مورخ راز سیگل کا حوالہ دیتے ہوئے کہا، نسلی کشی کا خیال ہٹلر کے ساتھ پیدا نہیں ہوا تھا، اور نہ ہی اس کے ساتھ مرا تھا۔‘‘البانیزی نے دلیل دی کہ فلسطینی تجربہ یورپ کو اس کے اپنے ماضی سے جوڑنے پر مجبور کرتا ہے، اور کہا کہ’’ ہولوکاسٹ ‘‘اکیلا استثنا نہیں تھا بلکہ وہ لمحہ تھا جب مقامی لوگوں کے خلاف استعمال ہونے والے تسلط کے اوزار یورپ لائے گئے تھے۔‘‘البانیزی نے غزہ کی صورت حال کے بارے میں عوامی طور پر بولنے کے بعد انہیں درپیش ذاتی نتائج کا بھی تذکرہ کیا۔ انہوں نے کہا، "میری اور میرے خاندان کی زندگی معنی نہیں رکھتی۔ ہم سب کو مل کر نسل کشی، مستقل قبضے اور ظلم کو روکنا ہوگا۔ ہم کر سکتے ہیں اور ہمیں کرنا چاہیے۔ قانون اس کا تقاضا کرتا ہے۔‘‘
یہ بھی پڑھئے: غزہ: تاریخی و ثقافتی ورثہ تباہی کا شکار، اسرائیل نے ۲۰؍ ہزارنوادرات چوری کرلئے
انہوں نے بتایا کہ جولائی میں امریکہ کی طرف سے ان پر عائد کردہ پابندیوں کے تعلق سے کہا کہ یہ ایرانی سربراہ یا (روسی صدر ولادیمیر) پوتن پر عائد پابندیوں جیسی ہیں جس کی وجہ سے وہ بینک اکاؤنٹ نہیں کھول سکتیں اور نہ ہی اپنی تنخواہ وصول کر سکتی ہیں۔انہوں نے یہ بھی بتایا کہ ان پابندیوں نے ان کے خاندان کو کیسے متاثر کیا ہے۔ ان کی بیٹی، جو واشنگٹن ڈی سی میں پیدا ہوئی، اور ان کے شوہر جو امریکہ میں قائم ایک تنظیم کے لیے کام کرتے ہیں اب وہاں سفر کرنے پر گرفتاری کے خطرے سے دوچار ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ان کے شوہر پر پابندیوں کے تحت کسی شخص کی حمایت کرنے پر دس لاکھ ڈالر تک کا جرمانہ عائد ہو سکتا ہے۔ خاندان کو واشنگٹن میں اپنے اپارٹمنٹ تک رسائی سے بھی محروم کر دیا گیا ہے۔انہوں نے کہا، ’’یہ صرف میری جائیداد کو روکنے یا میرے اکاؤنٹ کو منجمد کرنے کے بارے میں نہیں ہے۔ میں کہیں بھی بینک اکاؤنٹ نہیں کھول سکتی، اور میری پیشہ ورانہ وابستگی سے جڑے سینکڑوں افراد کو نقصان پہنچا ہے۔