گزشتہ دن غزہ کیلئے امدادی کشتی ’’میڈلین‘‘ کو اسرائیل کی جانب سے ضبط کئے جانے کے بعد لندن، پیرس، کوپن ہیگن، روم، میلان، لیون، ایکس این، تولوس، لیل ، برلن، ایتھنز، دی ہیگ، کوپن ہیگن، اور دیگر شہروں میں اسرائیلی جارحیت کے خلاف صدائے احتجاج بلند کی گئی۔
EPAPER
Updated: June 11, 2025, 7:56 AM IST | London
گزشتہ دن غزہ کیلئے امدادی کشتی ’’میڈلین‘‘ کو اسرائیل کی جانب سے ضبط کئے جانے کے بعد لندن، پیرس، کوپن ہیگن، روم، میلان، لیون، ایکس این، تولوس، لیل ، برلن، ایتھنز، دی ہیگ، کوپن ہیگن، اور دیگر شہروں میں اسرائیلی جارحیت کے خلاف صدائے احتجاج بلند کی گئی۔
غزہ جانے والے امدادی بحری جہاز ’’میڈلین‘‘ کو گزشتہ دن اسرائیلی فورسیز کی جانب سے ضبط کئے جانے کے بعد عالمی سطح پر اسرائیل کے خلاف غم وغصہ پھوٹ پڑا ہے۔ ایک جانب جہاں عالمی لیڈران اسرائیل کی اس حرکت کی مذمت کررہے ہیں، وہیں دوسری جانب مختلف شہروں میں عام باشندے فلسطین کی حمایت میں سڑکوں پر اتر آئے ہیں۔
پیرس (فرانس) میں ’’لا فرانس انسومیس‘‘ جیسے سیاسی گروپوں، کارکنوں اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے غزہ کی اسرائیل کی طویل ناکہ بندی کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا۔ پیرس میں مظاہرین ’’پلیس دی لا ری پبلک‘‘ پر جمع ہوئے۔ اس طرح کے مظاہرے فرانس کے لیون، ایکس این، تولوس، لیل اور دیگر شہروں میں بھی ہوئے۔ مظاہرین نے شہریوں کے تحفظ اور بین الاقوامی سمندری قوانین کو برقرار رکھنے کیلئے مضبوط اور زیادہ موثر سفارتی کارروائی کا مطالبہ کیا۔
کارکنوں کی حمایت میں بات کرتے ہوئے لا فرانس انسومیس کی لیڈر جین لوئے میلینچون نے غزہ میں اسرائیل کی جاری فوجی مہم کی مذمت کی۔ انہوں نے کہا کہ ’’چونکہ اس جنگی جرم کے بارے میں، جسے نسل کشی کی کوشش کہا جانا چاہئے، دنیا مسلسل بیانات جاری کر رہی ہے مگر طاقتور، جو عموماً ہمیں اخلاقی اقدار کا درس دیتے ہیں، اس قتل عام کے سامنے خاموش ہیں جسے اب ۱۸؍ ماہ ہوچکے ہیں۔ ہم حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اس ضمن میں سخت کارروائی کرے۔‘‘
برطانیہ کی راجدھانی لندن میں وزیر خارجہ کے دفتر کے باہر مظاہرین جمع ہوئے اور نا انصافی ختم کرنے کے خلاف آواز بلند کی۔ انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ جہاز اور عملے کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے اور بین الاقوامی قوانین (بحری) کے تحت جہاز کو فوری طور پر فلسطینیوں کے حوالے کیا جائے۔
اٹلی کے دارالحکومت روم کی سڑکوں پر کم و بیش ۳؍ لاکھ شہری نکل آئے اور اسرائیلی جارحیت کے خلاف جم کر نعرے بازی کی۔ مظاہرین نے فلسطینی پرچم لہراتے ہوئے صہیونیت کے خلاف نعرے لگائے۔ انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ اسرائیل کو روکنے کیلئے ٹھوس اقدامات کرے۔ ایسے ہی مظاہرے میلان کے مختلف علاقوں میں ہوئے۔
وسطی برلن (جرمنی) میں ہزاروں افراد ’’میڈلین پر حملہ بند کرو‘‘ بینر کے تحت الیگزینڈر پلاٹز اور برلن سٹی ہال کے پاس جمع ہوئے۔ انہوں نے بینر اٹھا رکھے تھے جن پر درج تھا ’’صہیونیوں کو بین الاقوامی قوانین کا بھی پاس نہیں‘‘، ’’صہیونی دنیا تباہ کررہے ہیں‘‘، اور ’’صہیونیت کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے کے وقت آگیا ہے۔‘‘
یہ بھی پڑھئے: گراتز، آسٹریا: اسکول میں فائرنگ، متعدد ہلاک اور زخمی، مشتبہ طالب علم کی خودکشی
یونان کی راجدھانی ایتنھزکی سڑکوں پر عوام کا جم غفیر اسرائیلی مظالم کے خلاف آواز بلند کررہا تھا۔ مظاہرین نے فیوم کلر اسپرے کے ذریعے فلسطینی پرچم کے رنگ آسمان میں بلند کئے اور صہیونیت کو للکارا۔ مظاہرین نے کہا کہ ’’تم ایک میڈلین ضبط کرسکتے ہو مگر اس کے ذریعے جو تحریک شروع ہوئی ہے اسے کچل نہیں سکتے۔‘‘
ڈنمارک کے دارالحکومت کوپن ہیگن میں ایک بڑے مظاہرے کا اہتمام اس طرح کیا گیا کہ سوشل میڈیا کے ذریعے شہریوں کو جمع کیا گیا اور شہر کی سڑکوں پر ٹرک کے پیچھے ہجوم اسرائیل کے خلاف آواز بلند کرتے ہوئے چکر لگاتا رہا۔ مظاہرین نے کہا کہ ’’حکومت معاملے کو پیچیدہ نہ کرے بلکہ نسل کشی کے خلاف ٹھوس قدم اٹھائے۔‘‘
دی ہیگ (نیدرلینڈس) میں عوام اسرائیل کے خلاف اس قدر غصے میں تھے کہ پولیس کو بھاری نفری تعینات کرنی پڑی۔ تاہم، پُرامن طریقے سے شہریوں نے احتجاج کیا اور حکومت سے کہا کہ وہ اسرائیل کیلئے اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی کرے۔
مختلف شہروں میں مظاہرین مختلف زبانوں میں پلے کارڈز کے ساتھ کھڑے تھے جن پر درج تھا، ’’اسرائیل کو غزہ کے ۲۳؍ لاکھ فلسطینیوں کو بھوکا رکھنے سے روکا جائے‘‘، ’’غزہ کی جانب مزید امدادی کشتیاں روانہ کی جائیں‘‘، ’’کیا اگر غزہ کی جانب کشتیاں جائیں تو ہماری حکومتیں ان کی حفاظت نہیں کرسکتیں؟‘‘، ’’ہم سب میڈلین ہیں‘‘، ’’اب کہنے کو کچھ نہیں رہ گیا، غزہ کو بچایئے‘‘، ’’جی ہاں! آپ کی خاموشی قتل کا باعث بن رہی ہے‘‘ اور ’’نسل کشی بند کرو‘‘ وغیرہ۔
یہ بھی پڑھئے: امریکہ: نیو آرک ایئرپورٹ پر ہندوستانی طالب علم کو بے رحمی سے حراست میں لیا گیا
دنیا بھر میں جاری مظاہروں میں میڈلین پر سوار کارکنوں کی ہمت اور عزم کو خوب سراہا گیا، اور انہیں خراج عقیدت پیش کیا گیا۔ خیال رہے کہ فریڈم فلوٹیلا میں ۱۲؍ افراد کا عملہ سوار تھا جس میں سویڈن کی ماحولیاتی کارکن گریٹا تھنبرگ اور یورپی پارلیمنٹ کی فرانسیسی فلسطینی رکن ریما حسن بھی شامل تھیں۔اس پر جرمنی سے یاسمین ایکار، فرانس سے باپٹسٹ آندرے، پاسکل موریرس، یانس محمدی اور ریوا ویار ڈ، برازیل سے تھیاگو اویلا، ترکی سے سویب اورڈو، اسپین سے سرجیو ٹوریبیو، نیدرلینڈس سے مارکو وین رینس اور الجزیرہ کے صحافی عمر فیاض بھی تھے۔