غزہ میں موجود امریکی نرس کا کہنا ہے کہ غزہ کے آخری اسپتال میں طبی نظام تباہی کے دہانے پر ہے، عملہ اور ڈاکٹر بھوک سے مر رہے ہیں۔
EPAPER
Updated: August 20, 2025, 2:10 PM IST | Gaza
غزہ میں موجود امریکی نرس کا کہنا ہے کہ غزہ کے آخری اسپتال میں طبی نظام تباہی کے دہانے پر ہے، عملہ اور ڈاکٹر بھوک سے مر رہے ہیں۔
ناصر میڈیکل کمپلیکس کےجو جنوبی غزہ کا آخری فعال اسپتال ہے، فلسطینی نژاد امریکی نرس امندا ناصر صحت کے ایک ایسے نظام کی عینی شاہد ہیں جو اسرائیلی بمباری اور محاصرے کے باعث تباہی کے دہانے پر ہے، جس نے مریضوں اور طبی عملے دونوں کو المیے میں دھکیل دیا ہے۔ ۳۹؍سالہ ایمرجنسی نرس پریکٹیشنر ناصر تقریباً ایک ہفتہ قبل ایک انسان دوست مشن پر غزہ پہنچیں اور ایمرجنسی وارڈ میں کام کر رہی ہیں۔انہوں نے انادولو کو بتایا، کہ ’’ یہاں کی صورت حال المناک ہے۔ صحت کا نظام تباہی کے دہانے پر ہے۔ یہ غزہ کا آخری فعال اسپتال ہے۔‘‘انہوں نے کہا کہ یہاں آنے والے مریضوں کو انتہائی مہلک چوٹیں آئی ہیں۔یہاں جو مریض آ رہے ہیں، ان کے سر، سینے، پیٹ، اور تمام اعضا میں گولیوں کے گہرے زخم ہیں۔، اعضا میں فریکچر کی کثیر تعداد ہے، جس کی وجہ سے کچھ لوگوں کے اعضا کاٹنے پڑ رہے ہیں یا بڑی سرجریز کرنی پڑ رہی ہیں۔ کچھ کو عملے اور سامان کی کمی کی وجہ سے سرجری بھی میسر نہیں ہو رہی۔‘‘ان کے مطابق زیادہ تر مریض نوعمر اور بیس سے تیس سال کے درمیان نوجوان ہیں۔انہوں نے کہا، ’’بہت سے مریض ایسے آتے ہیں جو زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بستے ہیں۔سامان کی شدید قلت ہے، اور اکثر ہمیں یہ انتخاب کرنا پڑتا ہے کہ کون انتہائی نگہداشت کا مستحق ہے اور اگر انتہائی نگہداشت دی جائے تو کون زیادہ زندہ بچنے کا امکان رکھتا ہے۔ یہ فیصلہ نہایت اہم اور انتہائی مشکل ہوتا ہے۔‘‘
یہ بھی پڑھئے: ارجنٹائنا کے دورے سے قبل نیتن یاہو کے خلاف جنگی جرائم کا معاملہ درج
زخموں کے علاوہ، ناصر نے خبردار کیا کہ قحط اب خود اسپتال کو بھی اپنی لپیٹ میں لے رہا ہے۔انہوں نے کہا، ’’میں نے عملے سمیت بہت سے کم غذائیت کا شکار لوگ بھی دیکھے ہیں۔ ہر کوئی بہت دبلا پتلا، پانی کی کمی کا شکار، اور طویل اوقات کام کر رہا ہے۔ ناقص غذائیت کا شکار بہت سے بچے ہیں۔ اب تک ناصر میڈیکل کمپلیکس میں ہم نے کچھ شیر خوار بچوں کو غذائی قلت سے مرتے دیکھا ہے۔‘‘
غزہ کی وزارت صحت کے مطابق۲۰۲۵ء کے آغاز سے اب تک غزہ میں غذائی قلت کے تقریباً ۲۸؍ ہزار معاملات درج کیے گئے ہیں، جن میں ۲۶۳؍اموات ہوئی ہیں، جن میں۱۱۲؍ بچے شامل ہیں۔ سخت حالات کے باوجود، ناصر کا کہنا ہے کہ انہیں غزہ میں ہونے پر فخر محسوس ہوتا ہے۔انہوں نے کہا، ’’ایک فلسطینی ہونے کے ناطے مجھے یہاں غزہ کے لوگوں کی خدمت کر نے پر فخر محسوس ہو رہا ہے۔ میں یہاں موجود ہر شخص کی انتہائی عزت کرتی ہوں اور میں اس بات کو یقینی بنانا چاہتی ہوں کہ میں یہاں کے لوگوں کے ساتھ عزت اور وقار کے ساتھ پیش آؤں۔ میں خود کو محفوظ محسوس کرتی ہوں کیونکہ میں غزہ کے فلسطینیوں کے درمیان ہوں جنہوں نے میرے ساتھ انتہائی مہمان نوازی کا مظاہرہ کیا ہے۔‘‘
یہ بھی پڑھئے: غزہ : اسرائیلی جارحیت میں مزید ۷۷؍فلسطینی شہید، سیکڑوں زخمی
انہوں نے مدد کے لیے براہ راست بین الاقوامی برادری سے اپیل بھی کی۔’’دنیا کو میرا پیغام یہ ہے کہ ہمیں فوری جنگ بندی کی ضرورت ہے۔ ہمیں ایک آزاد فلسطینی ریاست کی ضرورت ہے۔ یہاں کے فلسطینی صرف ایک عام زندگی گزارنے کی کوشش کر رہے ہیں۔کیا وہ اس کے مستحق نہیں ہیں۔ انسانوں کے ساتھ یہ انتہائی وحشیانہ اور غیر انسانی سلوک ہے، اور اسے روکنا ہوگا۔ اسے ابھی روکنا ہوگا۔‘‘ناصر نے صدر ڈونالڈ ٹرمپ سے براہ راست اس صورت حال کو دیکھنے کی اپیل کرتے ہوئے کہا کہ ’’صحافیوں کو سچ بولنا جاری رکھنا ہوگا، دنیا تک پیغام پہنچانا ہوگا۔ اس نسل کشی کو روکنے کے لیے مدد کے بہت سے طریقے ہیں، ان مصنوعات کا بائیکاٹ کریں جو اس نسل کشی کو فنڈ کرتی ہیں بنیادی طور پر وہ جو امریکہ اور یورپ میں فروخت ہوتی ہیں، اور اسرائیلی مصنوعات۔ اپنے کانگریس کے رکن کو ای میل یا فون سے رابطہ کریں، احتجاج جاری رکھیں، آواز بلند کرتے رہیں۔‘‘انہوں نے مزید کہا، ’’بطور صحت کارکن، میں یہاں لوگوں کی مدد کرنا اپنا فرض سمجھتی ہوں۔ اور مجھے امید ہے کہ میں ایک بڑے مقصد میں اپنا کردار ادا کر سکتی ہوں۔‘‘