اپنے کھلے خط میں ربیوں نے اسرائیل سے غزہ میں وسیع پیمانے پر انسانی امداد کی اجازت دینے کا پرزور مطالبہ کیا اور مقبوضہ مغربی کنارے میں آباد کاروں کے بڑھتے ہوئے تشدد کو بھی اجاگر کیا۔
EPAPER
Updated: July 29, 2025, 10:11 PM IST | Tel Aviv
اپنے کھلے خط میں ربیوں نے اسرائیل سے غزہ میں وسیع پیمانے پر انسانی امداد کی اجازت دینے کا پرزور مطالبہ کیا اور مقبوضہ مغربی کنارے میں آباد کاروں کے بڑھتے ہوئے تشدد کو بھی اجاگر کیا۔
غزہ میں جاری بڑے پیمانے پر ’جبری بھکمری‘ کی اسرائیلی پالیسی کی شدید مذمت کرتے ہوئے، دنیا بھر کے ایک ہزار سے زائد ربیوں نے ایک کھلے خط پر دستخط کئے ہیں۔ اس خط میں یہودی مذہبی علماء نے تل ابیب سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ غزہ میں بھوک کو ”جنگ کے ہتھیار“ کے طور پر استعمال کرنا فوری طور پر بند کرے۔ مختلف یہودی فرقوں سے تعلق رکھنے والے مذہبی لیڈران نے اسرائیل پر زور دیا کہ وہ محصور فلسطینی علاقے میں بغیر کسی رکاوٹ کے انسانی امداد کی اجازت دے، باقی ماندہ اسرائیلی یرغمالوں کو واپس لائے اور غزہ میں جاری جنگ کے خاتمے کیلئے کام کرے۔
جمعہ کو شائع ہوئے اس خط کو ربی جوناتھن وٹنبرگ (برطانیہ)، ربی آرتھر گرین (امریکہ) اور ربی ایریل پولاک (تل ابیب) جیسی سرکردہ مذہبی شخصیات نے تحریر کیا ہے۔ انہوں نے خط میں خبردار کیا کہ غزہ میں بڑھتی ہوئی شہری ہلاکتوں اور بڑے پیمانے پر جبری بھکمری کی متعدد رپورٹس کے بعد پوری یہودی قوم ”ایک سنگین اخلاقی بحران“ کا سامنا کررہی ہے۔ خط میں مزید کہا گیا ہے کہ ”ہم اسرائیل اور یہودی قوم کی فلاح و بہبود کیلئے سنجیدہ عہد پر قائم ہیں۔ لیکن ہم اب خاموش نہیں رہ سکتے جب غزہ میں انسانی صورتحال بگڑ رہی ہے۔“
یہ بھی پڑھئے: برطانیہ موجودہ پارلیمنٹ کے دوران فلسطین کو تسلیم کرے گا: وزیر تجارت
یہ خط ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب امریکہ کی کچھ بڑی یہودی تنظیموں اور حقوق گروپس نے اسرائیلی بیانات کی کھلے عام مخالفت شروع کردی ہے۔ خاص طور پر، اسرائیل کے دو ممتاز انسانی حقوق گروپس، بٹسلیم اور فزیشینز فار ہیومن رائٹس اسرائیل، نے اعلان کیا ہے کہ “غزہ پر اسرائیل کا حملہ نسل کشی کے مترادف ہے۔“ یہ پہلی بار ہے کہ اسرائیلی تنظیموں نے اسرائیل کی جارحیت کو بیان کرنے کیلئے اتنی واضح زبان استعمال کی ہے۔
اسرائیلی پالیسیاں’یہودیت سے متصادم‘
ٹائمز آف اسرائیل کی رپورٹ کے مطابق، ربیوں کے خط میں اسرائیلی حکومت کی خوراک، پانی اور طبی سامان کی ناکہ بندی کی بھی مذمت کی گئی اور دلیل پیش کی گئی کہ ایسی پالیسیاں ”یہودیت کے بنیادی اقدار سے متصادم“ ہیں۔ کئی حقوق اور امدادی تنظیموں نے بھی اس صورتحال کو ایک مکمل انسانی تباہی قرار دیا ہے۔
اپنے کھلے خط میں ربیوں نے صہیونی ریاست سے غزہ میں وسیع پیمانے پر انسانی امداد کی اجازت دینے کا پرزور مطالبہ کیا۔ اس کے علاوہ، خط میں مقبوضہ مغربی کنارے میں آباد کاروں کے بڑھتے ہوئے تشدد کو بھی اجاگر کیا گیا اور اسرائیلی حکام پر زور دیا گیا کہ وہ قانون کی حکمرانی کو برقرار رکھیں اور فلسطینیوں کے خلاف حملوں کے ذمہ دار افراد پر مقدمہ چلائیں۔ ربیوں نے اپنے خط میں مزید لکھا کہ ”اسرائیلی حکام، فوجی عہدیداروں اور پرتشدد آباد کار گروہوں کے متعدد بیانات اور اقدامات نے اس بحران کو بڑھاوا دیا ہے۔ یہ ایماندارانہ غور و فکر اور اخلاقی ذمہ داری کا وقت ہے۔“
ربیوں نے خط کے اختتام پر تجدید مکالمہ اور طویل المدتی امن کا مطالبہ کیا۔ خط میں لکھا ہے کہ ”اسرائیل کیلئے سلامتی، فلسطینیوں کیلئے وقار اور امید اور خطے کیلئے ایک قابل عمل، پرامن مستقبل ہمارا مشترکہ مقصد ہونا چاہئے۔ ہم یہودیوں کے طور پر، مذہبی لیڈران کے طور پر اور اخلاقی ہستیوں کے طور پر یقین رکھتے ہیں کہ انصاف، ہمدردی، اور انسانی وقار کو کبھی قربان نہیں کیا جانا چاہیے، یہاں تک کہ جنگ کے وقت بھی نہیں۔“
یہ بھی پڑھئے: نیویارک: مسئلہ فلسطین کے دو ریاستی حل پر کانفرنس
غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی
اسرائیل نے ۷ اکتوبر ۲۰۲۳ء سے غزہ پر وحشیانہ حملے جاری رکھے ہیں جس کے نتیجے میں غزہ کی وزارت صحت کے مطابق اب تک تقریباً ۶۰ ہزار فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں جن میں زیادہ تر خواتین اور بچے ہیں۔ فلسطین کی وفا نیوز ایجنسی کے مطابق، تقریباً ۱۱ ہزار فلسطینی تباہ شدہ گھروں کے ملبے تلے دبے ہوئے ہیں۔ ماہرین کا خیال ہے کہ اموات کی اصل تعداد کہیں زیادہ ہو سکتی ہے اور ممکنہ طور پر ۲ لاکھ سے تجاوز کر سکتی ہے۔ اس نسل کشی کے دوران، اسرائیل نے محصور علاقے کے بیشتر حصے کو کھنڈرات میں تبدیل کر دیا ہے اور اس کی تمام آبادی کو بے گھر کر دیا ہے۔ اسرائیلی قابض افواج کی مسلسل بمباری کے باعث غزہ پٹی میں خوراک کی شدید قلت اور بیماریوں کے پھیلاؤ میں اضافہ ہوا ہے۔
یہ بھی پڑھئے: اسرائیلی گروپس کا ’’غزہ نسل کشی‘‘ بند کرنے کا مطالبہ، اپنی ہی حکومت کی مذمت
گزشتہ نومبر میں، بین الاقوامی فوجداری عدالت نے اسرائیلی وزیراعظم بنجامن نیتن یاہو اور سابق وزیر دفاع یوو گیلنٹ کے خلاف غزہ میں جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم کے الزام میں گرفتاری کے وارنٹ جاری کئے تھے۔ اسرائیل اپنی جنگ کیلئے بین الاقوامی عدالت انصاف میں نسل کشی کے مقدمہ کا بھی سامنا کررہا ہے۔