سروے میں شامل ۶۶ فیصد افراد نے اتفاق کیا کہ ”جرمن حکومت کو غزہ پٹی کے متعلق اپنا موقف تبدیل کرنے کیلئے اسرائیلی حکومت پر مزید دباؤ ڈالنا چاہئے۔“
EPAPER
Updated: August 09, 2025, 6:29 PM IST | Berlin
سروے میں شامل ۶۶ فیصد افراد نے اتفاق کیا کہ ”جرمن حکومت کو غزہ پٹی کے متعلق اپنا موقف تبدیل کرنے کیلئے اسرائیلی حکومت پر مزید دباؤ ڈالنا چاہئے۔“
جرمنی میں کئے گئے حالیہ سروے کے نتائج کے مطابق، عوام کی اکثریت چاہتی ہے کہ جرمن حکومت، محصور فلسطینی علاقے غزہ پٹی میں اسرائیل کے اقدامات کے حوالے سے اس پر مزید دباؤ ڈالے۔ سرکاری نشریاتی ادارے اے آر ڈی کی جانب سے کرائے گئے ڈچ لینڈ ٹرینڈ سروے میں، ۶۶ فیصد شرکاء نے اتفاق کیا کہ ”جرمن حکومت کو غزہ پٹی کے متعلق اپنا موقف تبدیل کرنے کیلئے اسرائیلی حکومت پر مزید دباؤ ڈالنا چاہئے۔“ صرف ۲۴ فیصد شرکاء نے اس موقف سے اختلاف کیا۔
یہ سروے انفرا ٹیسٹ ڈی میپ پولنگ انسٹی ٹیوٹ کی جانب سے ۴ سے ۶ اگست کے درمیان کیا گیا جس میں ملک کی آبادی کی نمائندگی کرنے والے ۱۳۲۱ جرمن باشندوں کا انٹرویو لیا گیا۔ سروے میں انکشاف ہوا کہ ۶۲ فیصد جرمن اس خیال کو مسترد کرتے ہیں کہ ”جرمنی کے نازی اور یہود مخالف ماضی کی وجہ سے اسرائیل کے تحفظ کیلئے دوسرے ممالک کے مقابلے میں اس کی زیادہ ذمہ داری ہے۔“ صرف ۳۱ فیصد افراد نے اس روایتی موقف کی حمایت کی۔
یہ بھی پڑھئے: غزہ شہر پر قبضہ کے اعلان پر دُنیا بھر میں اسرائیل کی مذمت
جرمنی نے اسرائیل کو ہتھیاروں کی برآمد پر روک لگائی
غزہ میں قحط اور بھکمری سے بچوں کی اموات کی اطلاعات کے بعد جرمن حکومت پر بڑھتے ہوئے عوامی دباؤ کے درمیان چانسلر فریڈرک میرز نے جمعہ کو اسرائیل کو ہتھیاروں کی برآمدات جزوی طور پر معطل کرنے کا اعلان کیا۔ قدامت پسند لیڈر نے ایک بیان میں کہا کہ “حکومت، اسرائیل کو کسی بھی ایسے فوجی سازوسامان کی برآمدات کی اجازت نہیں دے گی جو غزہ میں استعمال کیا جاسکتا ہے۔“ یہ فیصلہ اسرائیلی حکومت کی جانب سے اپنی فوجی کارروائی کو وسعت دینے اور غزہ شہر پر قبضہ کرنے کے حالیہ فیصلے کے جواب میں کیا گیا۔ واضح رہے کہ اب تک چانسلر میرز نے مہینوں تک اپوزیشن قانون سازوں کی جانب سے اسرائیل کو ہتھیاروں کی برآمدات روکنے اور یورپی یونین کے رکن ممالک کی طرف سے تل ابیب کے ساتھ تجارتی معاہدے کو معطل کرنے کی اپیلوں کو نظر انداز کیا تھا۔
یہ بھی پڑھئے: اٹلی پارلیمنٹ: اپوزیشن نے فلسطینی پرچم کے رنگوں والا لباس پہن کر آواز بلند کی
غزہ نسل کشی
جنگ بندی کی اپیلوں کو مسترد کرتے ہوئے اسرائیل نے ۷ اکتوبر ۲۰۲۳ء سے غزہ پر وحشیانہ حملے جاری رکھے ہیں جس کے نتیجے میں، غزہ کی وزارت صحت کے مطابق، اب تک ۶۱ ہزار سے زائد فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں جن میں زیادہ تر خواتین اور بچے ہیں۔ فلسطین کی وفا نیوز ایجنسی کے مطابق، تقریباً ۱۱ ہزار فلسطینی تباہ شدہ گھروں کے ملبے تلے دبے ہوئے ہیں۔ ماہرین کا خیال ہے کہ اموات کی اصل تعداد کہیں زیادہ ہو سکتی ہے اور ممکنہ طور پر ۲ لاکھ سے تجاوز کر سکتی ہے۔ اس نسل کشی کے دوران، اسرائیل نے محصور علاقے کے بیشتر حصے کو کھنڈر میں تبدیل کر دیا ہے اور اس کی تمام آبادی کو بے گھر کر دیا ہے۔ اسرائیلی قابض افواج کی مسلسل بمباری کے باعث غزہ پٹی میں خوراک کی شدید قلت اور بیماریوں کے پھیلاؤ میں اضافہ ہوا ہے۔
گزشتہ نومبر میں، بین الاقوامی فوجداری عدالت نے اسرائیلی وزیراعظم بنجامن نیتن یاہو اور سابق وزیر دفاع یوو گیلنٹ کے خلاف غزہ میں جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم کے الزام میں گرفتاری کے وارنٹ جاری کئے تھے۔ اسرائیل غزہ جنگ کیلئے بین الاقوامی عدالت انصاف میں نسل کشی کے مقدمہ کا بھی سامنا کررہا ہے۔