تارکین وطن کی دوبارہ ہجرت کی خواہش، جرمنی میں بڑھتی ہوئی نسل پرستی کی عکاسی کرتی ہے۔ یہ لوگ یا تو کسی دوسرے یورپی ملک یا اپنے وطن واپس جانا چاہتے ہیں۔
EPAPER
Updated: June 20, 2025, 10:07 PM IST | Berlin
تارکین وطن کی دوبارہ ہجرت کی خواہش، جرمنی میں بڑھتی ہوئی نسل پرستی کی عکاسی کرتی ہے۔ یہ لوگ یا تو کسی دوسرے یورپی ملک یا اپنے وطن واپس جانا چاہتے ہیں۔
جرمن انسٹی ٹیوٹ فار لیبر مارکیٹ اینڈ اوکیوپیشنل ریسرچ (آئی اے بی) کی ایک حالیہ رپورٹ میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ ملک میں مقیم تارکین وطن کی ایک چوتھائی تعداد (اندازاً ۲۶ لاکھ) ملک چھوڑنے پر غور کر رہی ہے، جس سے جرمنی میں غیر ملکیوں کو درپیش امتیازی سلوک اور متاثرین کے مسائل ایک بار پھر توجہ کا مرکز بن گئے ہیں۔ جرمنی میں پسماندہ تارکین وطن کے مقدمات سنبھالنے والے ایک وکیل فاتح زنگال نے خبررساں ایجنسی انادولو کو بتایا کہ تارکین وطن کی دوبارہ ہجرت کی خواہش، ملک میں بڑھتی ہوئی نسل پرستی کی عکاسی کرتی ہے۔ ان کے مطابق، یہ لوگ کسی دوسرے یورپی ملک یا اپنے وطن واپس جانا چاہتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ملک میں آنے والے تارکین وطن کو جرمن ثقافت کے ساتھ ہم آہنگ ہونے میں اکثر مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
زنگال نے وضاحت کی کہ تارکین وطن سماجی ڈھانچے کی وجہ سے دیگر یورپی ممالک کو ترجیح دینے لگے ہیں۔ جو لوگ یہاں آتے ہیں انہیں پہلے سے تحقیق کرنی چاہئے؛ بصورت دیگر، وہ بھی مایوس ہو سکتے ہیں۔ حالات ایسے ہیں کہ اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد بھی جرمنی میں ایک یا دو سال کام کرنے کے بعد کسی دوسرے ملک ہجرت کرنے کا فیصلہ کر سکتے ہیں۔ انہوں نے واضح کیا کہ یہ صورتحال، صرف ان ایک چوتھائی افراد تک محدود نہیں ہے جو اپنے وطن واپس جانا چاہتے ہیں۔ وہ جرمنی سے بحیرہ روم کے ممالک جیسے اٹلی اور اسپین یا کنیڈا اور امریکہ جیسے ممالک کی طرف جا رہے ہیں۔
یہ بھی پڑھئے: ۷؍ لاکھ فلسطینیوں کو ایک مرتبہ پھر محفوظ مقامات چھوڑنے کا حکم: یو این
ملک میں بڑھتی ہوئی نسل پرستی
زنگال نے نشان دہی کی کہ نسل پرستی میں اضافہ، تارکین وطن کے ملک چھوڑنے کی خواہش کے پیچھے ایک اہم وجہ ہے۔ آلٹرنیٹو فار جرمنی (اے ایف ڈی) پارٹی کی مقبولیت ۲۵ فیصد کے قریب پہنچ گئی ہے۔ اس کے اثرات سرکاری دفاتر، اسکولوں، سرکاری ملازمین کے ساتھ تعاملات سمیت ملک بھر میں ہر سماجی دائرے میں محسوس کرسکتے ہیں۔ انہوں نے نوٹ کیا کہ جرمنی کو ہر شعبے میں کام کرنے کیلئے تارکین وطن کی ضرورت ہے اور جرمنی سے الٹ ہجرت ملک پر معاشی دباؤ ڈالے گی۔ زنگال نے مہاجرین کو درپیش مشکلات کا ذکر کرتے ہوئے خبردار کیا کہ جرمنی میں تارکین وطن کو ہر شعبے میں زیادہ جدوجہد کرنی پڑتی ہے اور یہ ان کے ملک میں آباد ہونے کی راہ میں ایک بڑا مسئلہ ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ جرمنی میں آنے والے ایک مہاجر کیلئے گھر یا گاڑی کرائے پر لینا ایک جرمن کے مقابلے دس گنا مشکل ہے۔
یہ بھی پڑھئے: اسرائیلی وزیراعظم نے مظالم میں ہٹلر کو بھی پیچھے چھوڑ دیا: رجب طیب اردگان
قوانین کے نفاذ کے مسائل
زنگال نے کہا کہ تارکین وطن کے خلاف نسل پرستانہ اور امتیازی نفرت انگیز جرائم کے حوالے سے قانون نافذ کرنے والے حکام کو زیادہ محتاط ہونے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے نوٹ کیا کہ مہاجرین کو نہ صرف زبانی بلکہ جسمانی تشدد کا بھی نشانہ بنایا جاتا ہے، اور زور دیا کہ جرمن حکومت کو لوگوں کی حفاظت کی ضمانت دینی چاہئے۔ زنگال نے یہ بھی کہا کہ جرمن سیاستدان تارکین وطن کے خلاف نسل پرستانہ اور امتیازی طریقوں کے خلاف "ووٹ کھو دینے" کے خوف سے آواز نہیں اٹھا رہے ہیں۔
یہ بھی پڑھئے: ۱۸؍ جون نفرت انگیز تقاریر سے نمٹنے کا دن؛ ’یہ تقاریر معاشرے کیلئے سمِ قاتل ہیں‘
ملک چھوڑنے کے متبادل پر غور کرنے والے اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں
آئی اے بی کے ایک مطالعے سے پتہ چلا ہے کہ ملک چھوڑنے پر غور کرنے والوں کی اکثریت اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد ہیں۔ ملک چھوڑنے کا ارادہ کرنے والوں کی ۳۹ فیصد تعداد انفارمیشن اینڈ کمیونیکیشن ٹیکنالوجی، ۳۰ فیصد مالیاتی شعبہ اور ۲۸ فیصد تعداد سماجی خدمات کے شعبے سے تعلق رکھتی ہے۔ جرمنی، جو یورپ کی سب سے بڑی معیشت ہے، چھوڑنے کا منصوبہ بنانے والوں میں کام کیلئے آنے والے افراد کے علاوہ تعلیم اور خاندان کےلئے ہجرت کرکے آنے والے افراد بھی شامل ہیں۔