جہازوں کی روانگی کے وقت سیکڑوں یونانی شہری، سائرس بندر گاہ پر جمع ہوئے اور فلسطینی پرچم لہرا کر مظلوم فلسطینیوں کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا۔
EPAPER
Updated: September 15, 2025, 8:02 PM IST | Athens/Tunis
جہازوں کی روانگی کے وقت سیکڑوں یونانی شہری، سائرس بندر گاہ پر جمع ہوئے اور فلسطینی پرچم لہرا کر مظلوم فلسطینیوں کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا۔
غزہ کے محاصرے کو چیلنج کرنے اور محصور فلسطینی علاقے کے باشندوں کو امداد پہنچانے جارہے امدادی بیڑے ’گلوبل صمود‘ میں شامل ہونے کیلئے یورپی ملک یونان کے جزیرے سائرس سے دو جہاز روانہ ہوئے۔ واضح رہے کہ گلوبل صمود، فریڈم فلوٹیلا کولیشن (ایف ایف سی) کی جانب سے غزہ کی طرف روانہ کیا جانے والا تیسرا جہازی قافلہ ہے۔
’گلوبل صمود‘ میں یونان سے دو جہاز ’اوکسیگونو‘ اور ’ائلیکٹرا‘ میں شامل ہوگے۔ اوکسیگونو کا پورا عملہ یونانی شہریوں پر مشتمل ہے جبکہ دونوں جہازوں میں یونان اور دیگر ممالک کے فلسطین حامی رضاکار سوار ہیں۔ جہازوں کی روانگی کے وقت سیکڑوں شہری سائرس بندر گاہ پر جمع ہوئے اور فلسطینی پرچم لہرا کر مظلوم فلسطینیوں کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا۔ اس موقع پر انہوں نے ”غزہ کی آزادی“ اور جیتنے کیلئے مزاحمت“ جیسے نعرے لگائے۔
یونان میں”مارچ ٹو غزہ“ تحریک کے منتظمین نے کہا کہ مشن کا مقصد صرف امداد فراہم کرنا نہیں بلکہ غزہ کی اسرائیلی ناکہ بندی کے خلاف عالمی عوامی رائے کو متحرک کرنا اور محفوظ انسانی راہداری کا مطالبہ کرنا بھی ہے۔ انہوں نے زور دیا کہ یہ قافلہ ”یکجہتی کا مضبوط پیغام“ دیتا ہے اور محصور علاقے کے اندر تباہ کن انسانی بحران کو اجاگر کرتا ہے۔
یہ بھی پڑھئے: غزہ میں بچوں کے سراور سینے پر گولیاں: ڈاکٹروں نے اسرائیلی طریقہ کار کاانکشاف کیا
واضح رہے کہ ایف ایف سی کی جانب سے گزشتہ ماہ ’گلوبل صمود‘ قافلے کا اعلان کیا گیا تھا جس کے تحت دسیوں جہاز اسپین کے بارسلونا اور اٹلی کے جنیوا سے روانہ ہوئے۔ اس سے قبل، گزشتہ دو مشنز صرف ایک جہاز پر مبنی تھے جن کے تحت’میڈلین‘ اور ’حنظلہ‘ نے غزہ کی ناکہ بندی توڑنے کی کوشش کی تھی لیکن انہیں اسرائیل نے روک لیا تھا اور ان پر سوار رضاکاروں کو ملک بدر کردیا تھا۔ اس تناظر میں ’گلوبل صمود‘ اپنی نوعیت کا سب سے بڑا اجتماعی مشن ہے۔ منتظمین نے اسے ”بے مثال“ قرار دیتے ہوئے کہا کہ قافلے میں بڑی تعداد میں شامل جہازوں کی بڑی تعداد کی وجہ سے اسرائیل کیلئے اسے نظر انداز کرنا یا دبانا مشکل ہو گا۔
’گلوںل صمود‘ قافلے کے حامیوں کا کہنا ہے کہ ان بین الاقوامی قانونی کارروائیوں کے پیش نظر، سول سوسائٹی کو وہاں عمل کرنا چاہئے جہاں حکومتیں ناکام ہو چکی ہیں اور غزہ کی ناکہ بندی کو چیلنج کرنے اور غزہ کے مصائب کی طرف عالمی توجہ مبذول کرانے کیلئے ایسے اقدامات کرنا چاہئے۔
تیونس سے ۱۶ بحری جہاز روانہ
غزہ کی طرف گامزن’گلوبل صمود‘ میں شامل ہونے کیلئے شمالی افریقی ملک تیونس کی بندرگاہوں سے ۱۶ بحری جہاز روانہ ہوچکے ہیں۔ المغرب دستے کے ایک رکن خالد بوجماعہ کے مطابق، سنیچر کی شام سے اتوار کی دیر رات تک شمالی تیونس کی بندرگاہ بزیرت سے ۱۱ بحری جہاز روانہ ہوئے۔ جبکہ ۳ بحری جہاز دارالحکومت تیونس کی گمرت بندرگاہ سے روانہ ہوئے اور ۲ دیگر بحری جہاز سیدی بو سعید کی بندرگاہ سے روانہ ہوئے۔
یہ بھی پڑھئے: غزہ پر اسرائیل کی بمباری اور حملوں کا سلسلہ برقرار، ۷۴؍ فلسطینی شہید، سیکڑوں زخمی
فلوٹیلا کے ترجمان غسان الحنشری نے بتایا کہ اتوار تک، ۲ بحری جہاز پہلے ہی گمرت سے روانہ ہو چکے تھے، جبکہ ایک اور جہاز روانگی کی تیاری کر رہا تھا۔ انہوں نے مزید کہا کہ ۸ تیونسی جہاز اس وقت وہاں لنگر انداز ہیں اور روانگی کے منتظر ہیں۔ الحنشری نے مزید بتایا کہ اٹلی اور اسپین سے بھی کئی بحری جہاز اپنا سفر شروع کر چکے ہیں اور تمام جہاز غزہ کی طرف روانہ ہونے سے پہلے بحیرہ روم میں ایک مقام پر جمع ہوں گے۔
رپورٹس کے مطابق، سنیچر کو پہلا تیونسی جہاز بزیرت سے روانہ ہوا، اس کے ساتھ ۱۸ دیگر کشتیاں بھی تھیں جو سسلی کی آگسٹا بندرگاہ سے غزہ کیلئے روانہ ہوئیں۔ واضح رہے کہ ’گلوبل صمود‘ کے بیڑے میں میں ۴۷ ممالک کے درجنوں بحری جہاز اور ممتاز سیاست دان، اراکین پارلیمنٹ اور فنکار سمیت سیکڑوں رضاکار شامل ہیں جن کی وجہ سے یہ قافلہ اسرائیل کے محاصرے کو چیلنج کرنے کی اب تک کی سب سے بڑی بین الاقوامی کوششوں میں سے ایک بن گیا ہے۔
یہ بھی پڑھئے: اسرائیلی جارحیت کے سبب غزہ میں غذائی مراکز بند، یونیسف کا امداد کا مطالبہ
غزہ نسل کشی
دریں اثنا، غزہ میں تاحال جاری اسرائیل کی تباہ کن فوجی کارروائیوں میں اکتوبر ۲۰۲۳ء سے اب تک تقریباً ۶۵ ہزار فلسطینی شہید ہو چکے ہیں جن میں زیادہ تر خواتین اور بچے ہیں۔ فلسطین کی سرکاری نیوز ایجنسی ’وفا‘ کے مطابق، تقریباً ۱۱ ہزار فلسطینی تباہ شدہ گھروں کے ملبے تلے دبے ہوئے ہیں۔ ماہرین کا خیال ہے کہ اموات کی اصل تعداد کہیں زیادہ ہو سکتی ہے اور ممکنہ طور پر ۲ لاکھ سے تجاوز کر سکتی ہے۔ اس نسل کشی کے دوران، اسرائیل نے محصور علاقے کے بیشتر حصے کو کھنڈر میں تبدیل کر دیا ہے اور اس کی تمام آبادی کو بے گھر کر دیا ہے۔ اسرائیلی قابض افواج کی مسلسل بمباری کے باعث غزہ پٹی میں خوراک کی شدید قلت اور بیماریوں کے پھیلاؤ میں اضافہ ہوا ہے۔ مارچ میں ایک مختصر جنگ بندی ختم ہونے کے بعد سے عالمی جنگ بندی کی کوششیں تعطل کا شکار ہیں۔
یہ بھی پڑھئے: غزہ نسل کشی میں شہید اور زخمیوں کی تعداد ۲؍ لاکھ سے زیادہ: سابق فوجی سربراہ
گزشتہ سال نومبر میں بین الاقوامی فوجداری عدالت (آئی سی سی) نے اسرائیلی وزیراعظم بنجامن نیتن یاہو اور سابق اسرائیلی وزیر دفاع یوآو گیلنٹ کے خلاف اسرائیل کی غزہ پر جنگ کے دوران مبینہ جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم کا حوالہ دیتے ہوئے گرفتاری کے وارنٹ جاری کئے تھے۔ اس کے علاوہ، اسرائیل بین الاقوامی عدالت انصاف (آئی سی جے) میں بھی نسل کشی کے مقدمے کا سامنا کر رہا ہے۔