رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اسرائیلی اشتہارات کو یوٹیوب اور گوگل کے ڈسپلے اور ویڈیو ۳۶۰ پلیٹ فارمز کے ذریعے منظم طریقے سے چلایا جا رہا ہے۔
EPAPER
Updated: September 04, 2025, 10:00 PM IST | Tel Aviv
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اسرائیلی اشتہارات کو یوٹیوب اور گوگل کے ڈسپلے اور ویڈیو ۳۶۰ پلیٹ فارمز کے ذریعے منظم طریقے سے چلایا جا رہا ہے۔
ڈراپ سائٹ نیوز کی ایک رپورٹ کے مطابق، گوگل نے مبینہ طور پر اسرائیلی وزیر اعظم بنجامن نیتن یاہو کے دفتر کے ساتھ ۶ ماہ کیلئے ۴۵ ملین ڈالر کا اشتہاری معاہدہ کیا ہے جس کا مقصد، غزہ میں بھکمری کو جھٹلانے والے اسرائیلی پیغامات کی تشہیر کرنا اور غزہ میں انسانی بحران کو کم اہمیت دینا ہے۔ نیوز آؤٹ لیٹ نے بدھ کو بتایا کہ جون کے آخر میں کئے گئے اس معاہدے میں گوگل کو نیتن یاہو کی عوامی تعلقات کی حکمت عملی میں اہم کردار ادا کرنے والے “کلیدی ادارے” کے طور پر نامزد کیا گیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق، مارچ میں غزہ پر ناکہ بندی عائد کرنے کے چند دنوں بعد ہی یہ مہم شروع کی گئی تھی۔ واضح رہے کہ ۲ مارچ کو اسرائیل نے غزہ پر تقریباً مکمل ناکہ بندی عائد کر دی تھی جس کی وجہ سے محصور علاقے میں خوراک، ادویات، ایندھن اور دیگر ضروری سامان کی فراہمی منقطع ہو گئی تھی، اس وقت اسرائیلی قانون سازوں نے سوال کیا تھا کہ کیا حکومت نے اس اقدام کے بعد ناگزیر عالمی ردعمل کیلئے کوئی مواصلاتی حکمت عملی تیار کی ہے؟ ایک اسرائیلی فوجی ترجمان نے نامہ نگاروں کو بتایا تھا کہ حکام ایک ڈجیٹل مہم شروع کر سکتے ہیں جس کے ذریعے ”یہ سمجھایا جائے گا کہ وہاں (غزہ میں) کوئی بھوک نہیں ہے اور ڈیٹا پیش کریں گے۔“
یہ بھی پڑھئے: وینس فلم فیسٹیول: ’دی وائس آف ہند رجب‘ کیلئے ۲۳؍ منٹ تک کھڑے ہوکر تالیاں بجائی گئیں
اس مہم کے تحت، حکومت کے حمایت یافتہ اشتہارات بڑے پیمانے پر پھیلائے گئے ہیں۔ ان میں اسرائیل کی وزارت خارجہ کی جانب سے جاری کردہ ایک یوٹیوب ویڈیو بھی شامل ہے جس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ ”غزہ میں کھانا موجود ہے۔ (غزہ میں بھکمری پھیلنے کا) کوئی بھی دوسرا دعویٰ جھوٹ ہے۔“ ڈراپ سائٹ کے مطابق، اس کلپ کو خطیر رقم خرچ کرکے بڑے پیمانے پر پھیلایا گیا ہے اور اسے ۶۰ لاکھ سے زائد مرتبہ دیکھا گیا ہے۔
’ریاستی پروپیگنڈہ‘
مہم کی دستاویزات میں اس منصوبے کو ”ہاسبارا“ کہا گیا ہے۔ یہ ایک عبرانی اصطلاح ہے جسے اکثر ”عوامی سفارت کاری“ کے طور پر ترجمہ کیا جاتا ہے لیکن اس کا مطلب بڑے پیمانے پر ’ریاستی پروپیگنڈہ‘ کے طور پر بھی لیا جاتا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اشتہارات کو یوٹیوب اور گوگل کے ڈسپلے اور ویڈیو ۳۶۰ پلیٹ فارمز کے ذریعے منظم طریقے سے چلایا جا رہا ہے۔ ریکارڈز سے یہ بھی ظاہر ہوا ہے کہ اسرائیل نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس (سابقہ ٹوئٹر) کے ساتھ اشتہارات پر ۳ ملین ڈالرز اور فرانسیسی-اسرائیلی اشتہاری پلیٹ فارم ’آؤٹ برین/ٹیڈز‘ پر ۱ء۲ ملین ڈالرز خرچ کئے۔
یہ بھی پڑھئے: بلجیم: فنکاروں نے اسرائیلی حملوں میں شہید ۱۸؍ ہزار ۷۰۰؍ فلسطینی بچوں کے نام پڑھے
اس طرح کی اسرائیلی حکمت عملیوں کی رپورٹس پہلے بھی سامنے آئی ہیں۔ ۲۰۲۳ء میں وائرڈ نے رپورٹ کیا تھا کہ گوگل پر اسرائیل کے حمایت یافتہ اشتہارات میں اقوام متحدہ پر غزہ میں امداد کی فراہمی میں ”جان بوجھ کر تخریب کاری“ کا الزام لگایا گیا تھا اور امریکی حمایت یافتہ متنازع گروپ، غزہ ہیومینیٹیرین فاؤنڈیشن (جی ایچ ایف) کو فروغ دیا گیا تھا، جسے ناقدین نے ایک ”موت کا جال“ قرار دیا تھا۔ اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ مئی کے آخر سے جی ایچ ایف نے غزہ میں امداد تقسیم کرنا شروع کیا ہے اور اب تک خوراک حاصل کرنے کی کوشش میں تقریباً ۱۴۰۰ افراد ہلاک اور ۵ ہزار سے زائد افراد زخمی ہوچکے ہیں۔ ان میں سے ۸۵۹ سے زائد اموات جی ایچ ایف کے امدادی مراکز کے پاس ہوئیں۔ ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ موجودہ امدادی نظام نہ صرف بنیادی انسانی ضروریات کو پورا کرنے میں ناکام ہے بلکہ ان لوگوں کو بھی خطرے میں ڈال رہا ہے جن کی مدد کرنا اس کا مقصد ہے۔ اس دوران، جی ایچ ایف کو ختم کرنے، غزہ کی ناکہ بندی ہٹانے اور محفوظ طریقے سے بڑے پیمانے پر خوراک کی فراہمی کو یقینی بنانے کیلئے اقوام متحدہ کی قیادت میں ایک امدادی کوآرڈینیشن نظام بحال کرنے کے مطالبات میں عالمی سطح پر اضافہ ہوا ہے۔
غزہ میں بھکمری اور انسانی بحران
محاصرے نے غزہ میں انسانی تباہی کے حالات کو بدتر بنا دیا ہے۔ غزہ کے سرکاری میڈیا آفس کے مطابق، ۱۲ لاکھ بچے ”خوراک کی شدید قلت“ کا سامنا کر رہے ہیں۔ اقوام متحدہ نے غزہ کے حالات کو ”بھکمری“ قرار دیا ہے اور اس کے ادارے ورلڈ فوڈ پروگرام نے خبردار کیا کہ غزہ میں ایک لاکھ بچے اور خواتین شدید غذائی قلت کا شکار ہیں جبکہ غزہ کی آبادی کا ایک چوتھائی حصہ ”قحط“ کے حالات کے دہانے پر کھڑا ہے۔ یونیسیف کا کہنا ہے کہ بچے ”بے مثال شرح“ سے بھوک سے مر رہے ہیں۔
دریں اثنا، غزہ کی وزارت صحت نے منگل کو رپورٹ کیا کہ اگست میں بھوک کی تاب نہ لاکر ۱۲ بچوں سمیت ۱۸۵ افراد نے دم توڑ دیا، جو تقریباً دو سال پہلے اسرائیل کی جنگ شروع ہونے کے بعد سے سب سے زیادہ تعداد ہے۔ حکام نے مزید کہا کہ پانچ سال سے کم عمر کے ۴۳ ہزار سے زیادہ بچے اور ۵۵ ہزار حاملہ اور دودھ پلانے والی خواتین شدید غذائی قلت کا شکار ہیں۔
یہ بھی پڑھئے: اسرائیلی فوج نے غزہ کو گھیرلیا،بہیمانہ بمباری بھی تیز،۱۱۹؍ فلسطینی شہید
غزہ نسل کشی
دریں اثنا، غزہ میں اسرائیل کی جاری تباہ کن فوجی کارروائیوں میں اکتوبر ۲۰۲۳ء سے اب تک تقریباً ۶۴ ہزار فلسطینی شہید ہو چکے ہیں جن میں زیادہ تر خواتین اور بچے ہیں۔ فلسطین کی سرکاری نیوز ایجنسی ’وفا‘ کے مطابق، تقریباً ۱۱ ہزار فلسطینی تباہ شدہ گھروں کے ملبے تلے دبے ہوئے ہیں۔ ماہرین کا خیال ہے کہ اموات کی اصل تعداد کہیں زیادہ ہو سکتی ہے اور ممکنہ طور پر ۲ لاکھ سے تجاوز کر سکتی ہے۔ اس نسل کشی کے دوران، اسرائیل نے محصور علاقے کے بیشتر حصے کو کھنڈر میں تبدیل کر دیا ہے اور اس کی تمام آبادی کو بے گھر کر دیا ہے۔ اسرائیلی قابض افواج کی مسلسل بمباری کے باعث غزہ پٹی میں خوراک کی شدید قلت اور بیماریوں کے پھیلاؤ میں اضافہ ہوا ہے۔ مارچ میں ایک مختصر جنگ بندی ختم ہونے کے بعد سے عالمی جنگ بندی کی کوششیں تعطل کا شکار ہیں۔
یہ بھی پڑھئے: اسرائیل کی ہٹ دھرمی اور مظالم کے خلاف کئی آوازیں اٹھیں
گزشتہ سال نومبر میں بین الاقوامی فوجداری عدالت (آئی سی سی) نے اسرائیلی وزیراعظم بنجامن نیتن یاہو اور سابق اسرائیلی وزیر دفاع یوآو گیلنٹ کے خلاف اسرائیل کی غزہ پر جنگ کے دوران مبینہ جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم کا حوالہ دیتے ہوئے گرفتاری کے وارنٹ جاری کئے تھے۔ اس کے علاوہ، اسرائیل بین الاقوامی عدالت انصاف (آئی سی جے) میں بھی نسل کشی کے مقدمے کا سامنا کر رہا ہے۔