Updated: June 01, 2025, 9:02 PM IST
| Gaza
حماس نے دعویٰ کیا کہ امریکی جنگ بندی کے تجویز کردہ مسودے میں اسرائیلی مداخلت کے بعد متفقہ متن میں تحریف کی گئی جبکہ امریکی ایلچی وٹکاف نے اسے `ناقابل قبول قرار دیا، جبکہتحریف شدہ معاہدے میں جنگ بندی کی ضمانت نہیں دی گئی اور نہ ہی جنگ سے تباہ حال علاقے میں انتہائی ضروری امدادی سامان کی آمد کو یقینی بنایا گیا۔
فلسطینی گروپ حماس نے امریکی ایلچی اسٹیو وٹکاف کی جانب سے پیش کردہ تازہ ترین جنگ بندی کی تجویز میں ترامیم کا مطالبہ کیا ہے، یہ دعویٰ کرتے ہوئے کہ ابتدائی متن، جس پر وہ متفق تھے، اب پیش کیے گئے متن سے مختلف ہے۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق، حماس کے سینئر عہدیدار باسم نعیم کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا گیا کہ’’ اسرائیل کی مداخلت کے بعد پیش کیا گیا نیا معاہدہ مکمل طور پر نیا متن تھا اور اس کا اس سے کوئی تعلق نہیں تھا جو انہوں نے منظور کیا تھا۔‘‘ حماس نے دعویٰ کیا کہ نئی تجویز میں پہلے طے شدہ ۶۰؍روزہ جنگ بندی کی ضمانت نہیں دی گئی اور نہ ہی جنگ سے تباہ حال علاقے میں انتہائی ضروری امدادی سامان کی آمد کو یقینی بنایا گیا۔تازہ ترین معاہدے میں جنگ کے خاتمے، مستقل جنگ بندی یا غزہ سے فوجیوں کے مکمل انخلا کے لیے مذاکرات کی کوئی ضمانت بھی نہیں دی گئی ، اس میں صرف غزہ کے اندر اسرائیلی فوجوں کی دوبارہ تعیناتی کی بات کی گئی ہے۔
یہ بھی پڑھئے: ’’جنگ بندی معاہدہ قبول کرو ورنہ مٹا دیا جائیگا‘‘
حماس کے مطابق، امریکی تجویز کردہ معاہدہ امریکی حمایت یافتہ امدادی تقسیم کے نظام کو بھی جائز قرار دیتا ہے، جسے اقوام متحدہ اور دیگر امدادی ایجنسیوں نے تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ حماس نے تجویز میں تبدیلیوں کا مطالبہ کیا ہے تاکہفلسطینیوں کو کم از کم ضروری امداد کی ضمانت دی جا سکے۔اس سے قبل جاری کردہ ایک بیان میں، حماس نے کہا تھا کہ تجویز کا مقصد مستقل جنگ بندی، غزہ سے اسرائیلی فوج کا جامع انخلا اور امداد کی یقینی فراہمی تھا۔ساتھ ہی ۱۰؍ زندہ یرغمال اور۱۸؍ دیگر کی لاشوں کو ’’فلسطینی قیدیوں کی متفقہ تعداد کے بدلے‘‘ رہا کیا جائے گا۔
یہ بھی پڑھئے: غزہ دنیا کا وہ مقام بن گیا ہے جہاں بھوک کی شدت سب سے زیادہ ہے: او سی ایچ اے
دریں اثنا، اسٹیو وٹکاف نے حماس کے جواب کو مکمل طور پر ناقابل قبول قرار دیا اور۶۰؍ روزہ جنگ بندی کے معاہدے کو بیان کیا جس سے غزہ میں آدھے زندہ یرغمالیوں کی رہائی اور آدھے مرنے والوں کی لاشوں کی واپسی ممکن ہو گی۔ انہوں نے حماس پر زور دیا کہ وہ اس فریم ورک تجویز کو مذاکرات کی بنیاد کے طور پر قبول کرے جو ان کے بقول اگلے ہفتے شروع ہو سکتے ہیں۔