ہماچل پردیش ہائی کورٹ نے قرار دیا کہ صرف ’پاکستان زندہ باد‘ کہنا بغاوت کے زمرے میں نہیں آتا۔ عدالت نے کہا کہ جب تک ہندوستان کے خلاف نفرت یا علاحدگی پسندی کو نہ بھڑکایا جائے، یہ جرم نہیں ہے۔
EPAPER
Updated: August 22, 2025, 5:01 PM IST | Shimla
ہماچل پردیش ہائی کورٹ نے قرار دیا کہ صرف ’پاکستان زندہ باد‘ کہنا بغاوت کے زمرے میں نہیں آتا۔ عدالت نے کہا کہ جب تک ہندوستان کے خلاف نفرت یا علاحدگی پسندی کو نہ بھڑکایا جائے، یہ جرم نہیں ہے۔
بار اینڈ بنچ کی رپورٹ کے مطابق ہماچل پردیش ہائی کورٹ نے منگل کو بتایا کہ صرف کسی دوسرے ملک کی تعریف کرنا بغاوت (سڈیشن) کے زمرے میں نہیں آتا، جب تک اس میں ہندوستان کی مذمت یا علاحدگی پسند جذبات اور تخریبی سرگرمیوں کو بھڑکانے کا عنصر شامل نہ ہو۔ عدالت نے مشاہدہ کیا کہ’’اگر کوئی شخص کسی دوسرے ملک کی تعریف کرے اور اپنی مادرِ وطن کی مذمت نہ کرے تو یہ بغاوت کا جرم نہیں بنتاکیونکہ اس سے نہ تو مسلح بغاوت بھڑکتی ہے اور نہ ہی تخریبی یا علاحدگی پسند سرگرمیوں کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔ اس لئے ابتدائی طور پر ملزم کو جرم سے جوڑنے کیلئے کافی مواد موجود نہیں ہے۔ ‘‘
یہ بھی پڑھئے: جی ایس ٹی:دو سلیب ختم کرنےکومنظوری
جسٹس راکیش کینتھلا نے یہ ریمارکس اُس وقت دیئے جب انہوں نے ایک شخص کو ضمانت دی جس پر وزیر اعظم نریندر مودی کی اے آئی سے تیار کردہ تصویر کے ساتھ ’’پاکستان زندہ باد‘‘ کے الفاظ شیئر کرنے کا الزام تھا۔ عدالت نے نوٹ کیا کہ اس کیس میں حکومت کے خلاف نفرت یا ناراضی بھڑکانے کا کوئی الزام موجود نہیں۔ عدالت نے کہا کہ ملزم سلیمان کی حراست جاری رکھنے کیلئے خاطر خواہ مواد موجود نہیں ہے۔ عدالت نے یہ بھی نوٹ کیا کہ دفاع کا مؤقف ہے کہ درخواست گزار کو جھوٹا پھنسایا گیا ہے۔ عدالتی حکم میں کہا گیا ہے کہ ’’اس نے ۸؍ جون ۲۰۲۵ء کو پولیس کے سامنے سرنڈر کیا اور اسی دن گرفتار ہوا۔ استغاثہ کے مطابق، درخواست گزار نے وزیر اعظم کی ایک اے آئی سے بنائی گئی تصویر، جس پر’’ `پاکستان زندہ باد‘‘ لکھا ہوا تھا، شیئر کی۔ اس پوسٹ کو اشتعال انگیز اور قومی مفاد کے خلاف قرار دیا گیا۔ ‘‘تاہم، عدالت نے درخواست گزار کی حالت کو مدنظر رکھا۔
یہ بھی پڑھئے: ملک میں بےروزگاری کا بڑھتا ہوا بحران
عدالت نے نوٹ کیا کہ درخواست گزار ایک غریب، ان پڑھ ریڑھی والا ہے جو پھلوں کی ایک چھوٹی ریڑھی چلا کر اپنا گزر بسر کرتا ہے۔ اسے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز چلانے کی معلومات یا صلاحیت نہیں۔ اس کا فیس بک اکاؤنٹ اُس کے بیٹے نے بنایا اور مدعی، جسے اس کے موبائل فون تک رسائی تھی، نے متنازعہ ویڈیو شیئر کی۔ یہ بھی کہا گیا کہ درخواست گزار اور مدعی کے درمیان مالی لین دین موجود تھا، جو شکایت کے پیچھے بدنیتی کی نشاندہی کرتا ہے۔ درخواست گزار، جو گزشتہ۲۴؍ برسوں سے اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ پاؤنٹا صاحب میں مقیم ہے، کا کوئی مجرمانہ ریکارڈ بھی نہیں پایا گیا۔ اہم بات یہ ہے کہ عدالت نے زور دیا کہ پولیس پہلے ہی درخواست گزار کا موبائل فون قبضے میں لے چکی ہے اور اسے فرانزک جانچ کیلئے بھیج دیا گیا ہے۔ عدالت نے ضمانت دیتے ہوئے کہا کہ ’’درخواست گزار سے مزید حراستی تفتیش کی ضرورت نہیں ہے۔ وہ۸؍ جون۲۰۲۵ء سے حراست میں ہے اور اس کی مزید حراست رکھنے سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ یاد رہے کہ ملزم سلیمان کو مئی میں سیرمور ضلع کے پاؤنٹا صاحب پولیس نے بھارتیہ نیایا سنہیتا (بی این ایس) کی دفعہ۱۵۲؍ کے تحت مقدمہ درج کیا تھا کیونکہ اس کی پوسٹ کو قومی مفاد کے خلاف اور اشتعال انگیز سمجھا گیا۔ بعد ازاں اس نے۸؍ جولائی کو پولیس کے سامنے سرنڈر کیا۔
یہ بھی پڑھئے: بہارمدرسہ ایجوکیشن بورڈ کی صد سالہ تقریبات کا افتتاح
سلیمان کے وکیل نے عدالت کے سامنے مؤقف اختیار کیا کہ اُن کے موکل کو جھوٹا پھنسا دیا گیا ہےاور چونکہ چارج شیٹ پہلے ہی داخل ہوچکی ہے، اس کی مزید حراست رکھنے کا کوئی جواز نہیں۔ تاہم، ریاست نے کہا کہ اُس وقت ہندوستان اور پاکستان کے تعلقات کشیدہ تھے اور’’پاکستان زندہ باد‘‘ کا نعرہ ایک ملک دشمن سرگرمی کے مترادف ہے۔ لیکن عدالت نے اس سے اختلاف کیا اور کہا کہ ملزم کو جرم سے جوڑنے کیلئے خاطر خواہ مواد نہیں ہے۔ عدالت نے مزید نوٹ کیا کہ پولیس پہلے ہی الیکٹرانک ڈیوائس قبضے میں لے کر فرانزک جانچ کیلئے بھیج چکی ہے۔ اس مقدمے میں سلیمان کی پیروی ایڈوکیٹ انوبھو چوپڑہ نے کی جبکہ ریاست ہماچل پردیش کی نمائندگی ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل لوکیندر کٹلھیریا اور ڈپٹی ایڈوکیٹ جنرل پرشانت سین، اجیت شرما اور سونی نہ چنہاری نے کی۔