Updated: December 05, 2025, 10:09 PM IST
| Hong Kong
ہانگ کانگ آتشزدگی میں کئی لوگوں کی جان بچانے والے ولیم لی نے کہا کہ جب لوگ’’ہیرو‘‘ کہتے ہیں تو دل ٹوٹ جاتا ہے،اس کے بجائے وہ اس احساس جرم سے پریشان ہیں کہ وہ وانگ فوک کورٹ میں لگنے والی آگ سے مزید لوگوں کو بچا سکتے تھے، جس میں کم از کم ۱۵۹؍ افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
ہانگ کانگ آتشزدگی میں کئی لوگوں کی جان بچانے والے ولیم لی۔ تصویر: ایکس
ہانگ کانگ کے ولیم لی نے اپنے پڑوسیوں کو اس آگ سے بچانے میں مدد کے بعد سے ’’ہیرو‘‘کے لیبل سے الجھن میں مبتلا ہیں، جو ان کی پیدائش کے بعد سے ہانگ کانگ کے اپارٹمنٹس کے اس بلاک کو نگل گئی جسے وہ اپنا گھر کہتے تھے۔اس کے بجائے وہ اس احساس جرم سے پریشان ہیں کہ وہ وانگ فوک کورٹ میں لگنے والی آگ سے مزید لوگوں کو بچا سکتے تھے، جس میں کم از کم ۱۵۹؍ افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
یہ بھی پڑھئے: اسرائیل نے غزہ کے پورے خاندان کو ’محفوظ‘ علاقے میں خیمے میں زندہ جلا دیا، چھ فلسطینی جاں بحق
۴۰؍ سالہ ولیم روتے ہوئے کہتے ہیں کہ’’ میرا دل ٹوٹ جاتا ہے جب بھی کوئی مجھے ہیرو کہتا ہے۔‘‘ بدقسمتی سےولیم اس وقت گھر پر ہی تھےجب یہ حادثہ پیش آیا۔جب ان کی اہلیہ نے فون کرکے بتایا کہ ان کی عمارت وانگ چیونگ ہاؤس میں آگ لگ گئی ہے۔جلدبازی کرنے کے بجائے، انہوں نے تقریباً ۱۰؍منٹ تک اپنا سامان پیک کیا۔لیکن جیسے ہی انہوں نے دروازہ کھولا، سانحے کی وسعت بالکل واضح ہو گئی: وہ دھوئیں کے بڑے بڑے بادلوں میں گھر گئے تھے۔انہیں دروازے کے نیچے گیلی تولیے رکھنے پڑے تاکہ دھواں اندر نہ آ سکے۔اسی وقت انہوں نے راہداری میں آوازیں سنیں، جہاں ہوا میں دھوئیں کی کثافت اتنی زیادہ تھی کہ وہ دیکھ نہیں سکتے تھے کہ کون پکار رہا ہے۔ اپنے چہرے پر گیلی تولیہ رکھتے ہوئے، انہوں نے اپنے دو پڑوسیوں کو چھو کر پایا اور اس جوڑے کو اپنے فلیٹ کے نسبتاً محفوظ مقام پر کھینچ لائے۔ایک متصل بلاک میںایک خاتون بھی اپنے پڑوسیوں کی مدد کرنے کی کوشش کر رہی تھیں۔خیال ہے کہ۶۶؍ سالہ خاتون نے کم از کم تین خاندانوں کو بچایا، اورآگ سے خبردار کرنے کے لیے ان کے دروازے کھٹکھٹائے۔
یہ بھی پڑھئے: ۱۱؍سال قبل لاپتہ ملائشیائی طیارہ ’ایم ایچ ۳۷۰‘ کی تلاش پھرشروع
لی کے فلیٹ میں موجودمعمر جوڑے نے انکشاف کیا کہ انہوں نے راہداری میں ایک اور آواز سنی تھی، ایک گھریلو ملازمہ ایک بوڑھی خاتون کو پکار رہی تھی۔ لیکن اب، آواز خاموش ہو چکی تھی۔ لیکن دھوئیں کی شدت نے لی کو ان کی مدد کیلئے جانے نہیں دیا۔اس پر لی نے کہا کہ ’’مجھے بہت جرم محسوس ہوتا ہے،کچھ لوگ نہیں بچائے گئے اور میں نے اپنا دروازہ دوبارہ نہیں کھولا اور انہیں تلاش کرنے کی کوشش نہیں کی۔‘‘لی کو ابھی تک معلوم نہیں ہے کہ راہداری کی آواز کا کیا ہوا۔ اطلاعات کے مطابق ہلاکتوں میں ۹؍انڈونیشیائی اور ایک فلپائنی گھریلو ملازمہ شامل ہیں، لیکن دوسرے بچ گئے ہیں ،جن میں۲۸؍ سالہ رہوڈورا الکاراز بھی شامل ہیں، جو اپنےمالک کے تین ماہ کے بچے اور بوڑھی ماں کی دیکھ بھال کرتے ہوئے ایک اور فلیٹ میں پھنس گئی تھیں۔ انہیں بھی ان کے ساتھ کھڑے رہنے کے لیے ہیرو قرار دیا گیا ہے۔ان تینوں کو آخرکار فائر فائٹرز نے بچا لیا، اس سے قبل انہوں نے آگ کی شدت اور مسلسل دھماکوں کی وجہ سے دوسری منزل کی کھڑکی سے کودنے سے انکار کر دیا تھا۔انہوں نے ہانگ کانگ کی خبروں کی ویب سائٹ ایچ کے۰۱؍ کو بتایا کہ لی نے اصرار کیا کہ وہ خود جوان ہیں اور حالات کا مقابلہ کر سکتے ہیں لہٰذا معمر افراد کو پہلے نکالیں۔جب فائر فائٹرز ان کے لیے واپس آئے، تو لی اپنا گھر چھوڑنے سے ہچکچا رہے تھے، جو خوبصورت یادوں اور فوٹو گرافی کے سامان اور کھلونوں کے قیمتی مجموعوں سے بھرا ہوا تھا۔
یہ بھی پڑھئے: انڈونیشیا: سیلاب کی تباہی کے بعد بھوک اصل پریشانی، لوگ کھانے کی تلاش میں در در بھٹک رہے ہیں
واضح رہے کہ لی ایک قریبی فاسٹ فوڈ ریستوران میں اپنے خاندان سے دوبارہ مل گئے۔لیکن اسپتال پہنچنے کے بعد صبح کے ابتدائی اوقات تک اس ہولناکی کی اصل شدت انہیں محسوس ہونے لگی جو انہوں نے برداشت کی تھی۔انہوں نے بتایا کہ جب وہ ایمرجنسی روم میں پہنچے توان کے گھٹنے جواب دے گئے۔ اور ناک میں جلنے کی بو بسی ہوئی تھی، تاہم انہوں نے صدمے کا سامنا کرنے کا فیصلہ کیا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ’’مجھے امید ہے کہ بہت سے لوگ سامنے آئیں گے اور سچائی تلاش کرنے میں مدد کریں گے،مجھے امید ہے کہ وانگ فوک کورٹ کے رہائشیوں کو جوابات اور انصاف ملے گا۔‘‘