Inquilab Logo

سہارنپور میں عمران مسعود کا مقابلہ بی جے پی امیدوار راگھو لکھن پال سے ہوگا

Updated: March 26, 2024, 10:53 AM IST | Qutbuddin Shahid | Mumbai

۲۰۱۴ء کی مودی لہر میں بھی انہوں نے ۴؍ لاکھ ووٹ حاصل کئے تھے اسلئے اب جبکہ وہ ’انڈیا‘ کے مشترکہ امیدوار ہیں،ان کی کامیابی کے امکانات روشن ہیں۔

Imran Masood. Photo: INN
عمران مسعود۔ تصویر : آئی این این

سہارنپور لوک سبھا حلقے سے کانگریس نے ایک بار پھر عمران مسعود پر اپنے اعتماد کااظہار کیا ہے۔ اس سے قبل ۲۰۱۹ء اور ۲۰۱۴ء میں وہ کانگریس کے ٹکٹ پرالیکشن لڑ چکے ہیں۔ حالانکہ ۲۰۱۹ء کے بعد انہوں نے کانگریس سے علاحدگی اختیار کر کے پہلے سماجوادی پارٹی اور پھر بی ایس پی کی رکنیت لی لیکن انہیں کوئی اور پارٹی راس نہیں آئی۔ انتخابی موسم آتے آتے وہ ایک بار پھر کانگریس میں پہنچ گئے ہیں اور کانگریس نے انہیں ٹکٹ بھی دے دیا ہے۔ اس طرح تیسری بار ان کا مقابلہ بی جےپی کے امیدوار راگھو لکھن پال سے ہوگا۔ 
 سہارنپور میونسپل کونسل کے چیئرمین کی حیثیت سے اپنے سیاسی کریئرکا آغاز کرنے والے ۵۳؍سالہ عمران مسعود کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ۲۰۰۷ء میں وہ مظفرآباد اسمبلی حلقے (اب اس کا نام بیہٹ حلقہ ہوگیا ہے) سے آزاد امیدوار کے طور پر ۴۳؍ فیصد سے زائد ووٹ لے کر کامیاب ہوچکے ہیں۔ ۲۰۱۴ء میں کانگریس نے انہیں سہارنپور لوک سبھا حلقے سے امیدوار بنایا تھا۔ مودی لہر کے اُس دور میں بھی عمران مسعود ۴؍ لاکھ سے زائد ووٹ حاصل کرکے دوسری پوزیشن پر رہے تھے۔

یہ بھی پڑھئے: سنبھل میں ضیاء الرحمان برق کے کاندھوں پر بڑی ذمہ داری آگئی ہے

۲۰۱۹ءمیں سماجوادی پارٹی اور بی ایس پی کے مشترکہ امیدوار حاجی فضل الرحمان حلقے کے سیکولر ووٹرس کی پہلی پسند تھے، اسلئے عمران مسعود ایک بار پھر ناکام ہوئے لیکن ان حالات میں بھی انہیں ۲؍ لاکھ سے زائد ووٹ ملے تھے۔ ایسے میں اب جبکہ وہ ’انڈیا‘ اتحاد کےمشترکہ امیدوار ہیں، ان کی کامیابی کے امکانات زیادہ روشن ہیں۔ عمران مسعود کے ساتھ کئی ’پلس پوائنٹس‘ بھی ہیں۔ 
اول یہ کہ حلقے میں ان کی عوامی مقبولیت کافی ہے۔ دوم یہ کہ کانگریس کی پوزیشن پہلے کے مقابلے کافی بہتر ہوئی ہے اور سوم یہ کہ سماجوادی پارٹی کی حمایت کی وجہ سے حلقے میں سیکولر ووٹوں کی تقسیم کا خدشہ نہیں کے برابر ہے۔ بی ایس پی نے وہاں سے حالانکہ ایک مسلم امیدوار ماجدعلی کو امیدوار بنایا ہے جو نگر پنچایت کے رکن ہیں اور ماضی میں اسمبلی کاالیکشن بھی لڑچکے ہیں لیکن موجودہ حالات میں یہ بات سبھی جانتے ہیں کہ مایاوتی نے یہ قدم مسلم نمائندگی بڑھانے کیلئے نہیں بلکہ مسلم نمائندگی کم کرنے کیلئے اٹھایا ہے، اسلئے اس مرتبہ سہارنپور ہی نہیں بلکہ پورے اترپردیش میں ان کی دال شایدہی گل سکے۔ یہ سب جانتے ہیں کہ اصل مقابلہ کانگریس اور بی جے پی ہی میں ہوگا۔ 
 ۴۲؍فیصد مسلم آبادی والے سہارنپور لوک سبھا حلقے میں ۵؍ اسمبلی حلقےآتے ہیں جن میں سے ۲؍ سیٹوں پر سماجوادی پارٹی اور ۳؍ سیٹوں پربی جے پی کا قبضہ ہے۔ عمران مسعود کے چچا رشید مسعود ۱۹۷۷ء سے ۲۰۰۴ء کے درمیان لوک سبھا میں اس حلقے کی ۵؍ مرتبہ نمائندگی کرچکے ہیں۔ اب ایک بار پھر امید کی جارہی ہے کہ سہارنپور کی قیادت اسی خاندان کے ایک تیزطرار نوجوان کے ہاتھوں میں ہوگی۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK