Updated: May 07, 2025, 2:01 PM IST
| Sri Nagar
کشمیر کے پہلگام دہشت گرد حملے کے بعد ہندوستان اور پاکستان کے مابین بڑھتی کشیدگی کے سبب کشمیر میں آنے والے تمام سیاحوں نے پیشگی بکنگ منسوخ کرادی ہیں۔جنگ کے خطرات کے پیش نظر کشمیر میں آئندہ طویل عرصے تک سیاحوں کی آمدنہ ہونے کے سبب سیاحتی قحط سالی کا خطرہ پیدا ہو گیا ہے۔
ڈل جھیل ۔ تصویر: آئی این این
ایٹمی طاقت رکھنے والےہند پاک کشمیر کے متنازع خطے پر، جس پر دونوں مکمل دعویٰ کرتے ہیں لیکن جزوی طور پر حکمرانی کرتے ہیں، دو جنگیں لڑ چکے ہیں۔ سرحد پر تعینات فوجیوں کے درمیان جھڑپوں نے کشمیر کو ان کے تنازع کی فرنٹ لائن بنا دیا ہے۔لیکن عسکریت پسندی میں کمی اور چار سال تک قائم رہنے والی جنگ بندی نے سیاحت کو فروغ دیا، جس کے نتیجے میں گزشتہ سال بھارتی کشمیر میں۳۰؍ لاکھ سے زائد سیاح آئے، جبکہ پاکستانی کشمیر میں تقریباً ۱۵؍ لاکھ سیاحوں نے چھٹیاں گزاریں۔ اس اضافے کو وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت کے لیے ایک بڑی کامیابی قرار دیا گیا تھا، جنہوں نے ۲۰۱۹ء میں کشمیر کی خودمختار حیثیت ختم کر دی تھی، جس سے بڑے پیمانے پر بے چینی پھیل گئی تھی۔
یہ بھی پڑھئے: ہند پاک کشیدگی: سات مئی کو ملک بھر میں ’’ڈِرل‘‘، جانئے پوری تفصیل
رواں سال گرمیوں کے عروج کے موسم کے آغاز پر ہوٹل، ہاؤس بوٹس اور ٹیکسیاں تقریباً مکمل طور پر بک تھیں، لیکن گزشتہ ماہ سیاحوں پر حملے میں۲۶؍ افراد کی ہلاکت کے بعد صورتحال یکسر بدل گئی۔ ہندوستان نے اس حملے کا الزام پاکستان پر عائد کیا اور اپنے پڑوسی کے خلاف سفارتی اور معاشی اقدامات کا اعلان کیا۔ پاکستان نے اس میں کسی بھی کردار سے انکار کیا، اور جوابی اقدامات کا اعلان کیاجبکہ ہندوستان کی جانب سے فوجی حملے کی وارننگ دی گئی۔
ہندوستانی ٹریول بکنگ ویب سائٹس پر ہاؤس بوٹس اور ہوٹلوں کی جانب سے بھاری رعایتوں کی پیشکش کی جا رہی ہے۔اس کے باوجود سیاح اس خطے کا رخ کرنے سے گریز کر رہے ہیں۔ دوسری جانب،پاکستان میں ۹۵۰۰؍ فٹ کی بلندی پر واقع پیر چناسی میں، سڑک کنارے ریستورانوں، ہوٹلوں اور گیسٹ ہاؤسز میں ویرانی ہے کیونکہ حکام نے ہندوستانی حملے کے خوف سے احتیاط کا مشورہ دیا ہے، حالانکہ یہ سرحد کے اتنا قریب نہیں ہے۔ حکام کا کہنا ہےکہ سرحد پر واقع نیلم ویلی، جو پاکستان کے پسندیدہ سیاحتی مقامات میں سے ایک ہے، فی الحال بند ہے۔علاقے کے ہوٹلوں اور گیسٹ ہاؤسز کی ایسوسی ایشن کے ترجمان ابرار احمد بٹ کے مطابق، وادی کے تقریباً ۳۷۰؍ہوٹل اور گیسٹ ہاؤس اب خالی ہیں۔ عام طور پر مئی سے سیاحوں کا رش شروع ہوتا ہے جب ملک کے دیگر حصوں میں درجہ حرارت بڑھ جاتا ہے۔علاقے میں سیاحت ۱۶۰۰۰؍ افراد کو روزگار فراہم کرتا ہے۔
یہ بھی پڑھئے: ہند پاک کشیدگی کےبیچ ریاستوں کو تیار رہنے اور کل ’بلیک آؤٹ‘ کی مشق کرنےکا مشورہ
اسلام آباد میں ایک غیر ملکی مشن میں کام کرنے والے سید یاسر علی کے لیے نیلم ویلی نہ جا پانا مایوسی کا باعث ہو سکتا ہے، لیکن انہوں نے اپنی بیوی اور تین بیٹوں کے ساتھ پیر چناسی کا دورہ کرتے ہوئے کوئی خوف محسوس نہیں کیا۔انہوں نے دیگر لوگوں کو پیغام دیتے ہوئے کہا کہ یہ حصہ محفوظ ہے۔ لوگ بے وجہ خوفزدہ ہیں۔میں خود یہاں ہوں اور محفوظ ہوں۔‘‘ لیکن یہ خوف مصدق حسین کی چھوٹی دکان کے کاروبار پر حقیقی معاشی اثرات ڈال رہا ہے۔ ’’کاروبار مکمل طور پر بند ہے،‘‘ انہوں نے کہا۔ ’’ملک میں امن ہونا چاہیے تاکہ ہم ترقی کر سکیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ دونوں ممالک میں امن ہو۔‘‘
سری نگر میں، ٹیکسی ڈرائیور تنویر اس واقع پر افسوس کرتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ’’خوفناک قتل سے پہلے شہر میں گاڑی چلانے کی جگہ نہیں تھی ، اب میں سارا دن مسافر کا انتظار کرتا ہوں۔ حملے سے پہلے، میرے پاس مزید کام لینے کا وقت ہی نہیں تھا۔‘‘ یاسین تومان، جو سری نگر، ہندوستانی کشمیر کے مرکزی شہر میں ۱۰۰؍ سال سے زائد پرانی ٹریول ایجنسی چلاتے ہیں اور متعدد ہاؤس بوٹس کے مالک ہیں، نے کہا کہ ان کے تقریباً تمام صارفین نے بکنگ منسوخ کر دی ہیں اور ان کے ہاؤس بوٹس خالی ہیں۔ حالیہ پاک ہند کشیدگی نے دونوں جانب کےکشمیر کی معیشت کوبری طرح متاثر کیا ہے۔