الجزیرہ قانون کا سہارا لے کر اسرائیلی حکومت ’آرمی ریڈیو‘ کو بند کرنے، سرکاری براڈکاسٹر ’کان‘ کی نجکاری کرنے اور میڈیا ریگولیٹرز کو براہِ راست حکومت کے زیر کنٹرول لانے کی کوششیں کر رہی ہے۔
EPAPER
Updated: December 24, 2025, 10:22 PM IST | Tel Aviv
الجزیرہ قانون کا سہارا لے کر اسرائیلی حکومت ’آرمی ریڈیو‘ کو بند کرنے، سرکاری براڈکاسٹر ’کان‘ کی نجکاری کرنے اور میڈیا ریگولیٹرز کو براہِ راست حکومت کے زیر کنٹرول لانے کی کوششیں کر رہی ہے۔
اسرائیلی حکومت نے یروشلم اور اسرائیل بھر میں الجزیرہ کے دفاتر کو بند کرنے کیلئے ایک مستقل قانون کو منظوری دے دی ہے۔ منگل کو اسرائیلی پارلیمنٹ میں ’الجزیرہ قانون‘ کے نام سے معروف قانون کی مدت میں دو سال کی توسیع کیلئے ووٹنگ ہوئی جس کے بعد، غزہ جنگ کے دوران ہنگامی بنیادوں پر متعارف کرائے گئے اس قانون کو ایک مستقل قانون میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔ اس اقدام کے بعد اسرائیل میں حکومتی اقدامات پر تنقید کرنے والے میڈیا اداروں پر ریاستی کنٹرول میں اضافہ ہوگیا ہے۔
اس قانون کے تحت، اسرائیلی حکومت، کسی غیر ملکی نشریاتی ادارے کے دفاتر بند کرنے کا حکم دے سکتی ہے، اس کا تکنیکی سامان ضبط کرسکتی ہے، اس کی نشریات روک سکتی ہیں اور اس کی ویب سائٹس تک رسائی کو روک سکتی ہے۔ وزیراعظم، وزیر مواصلات اور ایک وزارتی کمیٹی کی منظوری سے، یہ اقدامات اسی صورت میں کئے جاسکتے ہیں جب متعلقہ ادارے کو سیکوریٹی کیلئے خطرہ سمجھا جائے۔ اس قانون کا پہلی بار استعمال مئی ۲۰۲۴ء میں الجزیرہ پر اسرائیل میں کام کرنے پر پابندی لگانے کیلئے کیا گیا تھا۔
یہ بھی پڑھئے: اسرائیل پر۷؍ اکتوبر کے حملے کے بعد نیتن یاہو کی پہلی فکرخود کو جوابدہی سے بچانے کی تھی
حالیہ پیش رفت، وزیراعظم بنجامن نیتن یاہو کی قیادت میں اسرائیلی حکومت کی جانب سے میڈیا کے خلاف شروع کئے گئے کریک ڈاؤن کے دوران سامنے آئی ہے۔ رپورٹس کے مطابق، الجزیرہ قانون کا سہارا لے کر اسرائیلی حکومت ’آرمی ریڈیو‘ کو بند کرنے، سرکاری براڈکاسٹر ’کان‘ (Kan) کی نجکاری کرنے اور میڈیا ریگولیٹرز کو براہِ راست حکومت کے زیر کنٹرول لانے کی کوششیں کر رہی ہے۔
اسرائیلی حکام کا کہنا ہے کہ کچھ میڈیا اداروں نے جنگ کے دوران قومی اتحاد کو نقصان پہنچایا ہے۔ وزیرِ مواصلات شلومو کارہی نے اسرائیل کی جنگی کارروائیوں پر تنقید کرنے والے میڈیا اداروں پر الزام لگایا کہ انہوں نے جنگ کے دوران اندرونی تقسیم پیدا کرنے اور عوامی حوصلہ کمزور کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔
یہ بھی پڑھئے: ڈونالڈ ٹرمپ نے’’نیو یارک ٹائمز‘‘ کو قومی سلامتی کے لیے خطرہ قرار دیا
صحافیوں کی عالمی تنظیموں اور پریس فریڈم گروپس نے اس قانون سازی کی شدید مذمت کی ہے۔ انٹرنیشنل فیڈریشن آف جرنلسٹس نے خبردار کیا کہ اسرائیل ان آمرانہ ریاستوں کے طریقے اپنا رہا ہے جو حکومتی بیانیے کو چیلنج کرنے والے میڈیا اداروں کے خلاف قانون سازی کرتی ہیں۔ اسرائیل کی اٹارنی جنرل، گالی بہاراو میارا نے بھی اس قانون پر اعتراض کیا ہے۔ انہوں نے آرمی ریڈیو کو بند کرنے کی کوششوں کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے خبردار کیا کہ میڈیا قوانین میں یہ تبدیلیاں پریس کی آزادی اور جمہوری توازن کو خطرے میں ڈال دے گی۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ان اقدامات سے اسرائیلی عوام تک پہنچنے والی معلومات کا دائرہ مزید محدود ہو جائے گا۔