• Wed, 05 November, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

فلسطینی قیدی کی اجتماعی عصمت دری کے مرتکب اسرائیلی فوجیوں کی اپنی پیٹھ تھپتھپانے کی کوشش

Updated: November 04, 2025, 10:19 PM IST | Tel Aviv

عالمی سطح پر شدید مذمت کے درمیان، نیتن یاہو نے جرم کی مذمت نہیں کی لیکن اسے ’اسرائیل کی شبیہ کو بہت زیادہ متاثر کرنے والا‘ قرار دیا۔

Prisoners convicted in the scandal and Yifat Tomer-Yerushalmi. Photo: X
اسکینڈل میں مجرم قرار دیئے گئے قیدی اور یفات تومیر-یروشالمی۔ تصویر: ایکس

اسرائیل کے بدنام زمانہ سدے تیمن حراستی مرکز میں ایک فلسطینی قیدی کو تشدد کا نشانہ بنانے اور اس کی اجتماعی عصمت دری کرنے کے جرم میں سزا سنائے جانے کے بعد مجرم فوجیوں نے اپنے جرائم کا کھلے عام دفاع کیا اور اپنے اقدامات کیلئے ’تعرید اور شکریے‘ کا مطالبہ کیا۔ ان کے اس مطالبہ کے بعد عالمی سطح پر سخت غم و غصہ پایا جارہا ہے۔ 

پیر کو مغربی یروشلم میں اسرائیلی سپریم کورٹ کے باہر ایک پریس کانفرنس میں، سزا یافتہ فوجی اپنی شناخت چھپانے کیلئے کالے ماسک پہن کر نمودار ہوئے۔ انہوں نے فوج اور عدالتی نظام پر غداری کا الزام لگایا اور دعویٰ کیا کہ ”تعریف“ کے بجائے، انہیں ”الزامات“ ملے ہیں۔ اسرائیلی چینل ۷ کی رپورٹ کے مطابق، ان میں سے ایک فوجی جس کی شناخت اسصرف ابتدائی حرف ’اے‘ سے کی گئی، نے کہا کہ ”میں آج یہاں کھڑا ہوں کیونکہ میں خاموشی سے تھک چکا ہوں۔ تعریف کے بجائے، ہمیں الزامات ملے، شکریے کے بجائے خاموشی رہی۔“ اس نے مزید کہا کہ ”ہم خاموش نہیں رہیں گے۔ ہم انصاف اور اپنے خاندانوں کیلئے لڑتے رہیں گے۔ شاید آپ نے ہمیں توڑنے کی کوشش کی، لیکن آپ بھول گئے کہ ہم سو آدمیوں کی طاقت ہیں۔“

واضح رہے کہ یہ معاملہ جولائی ۲۰۲۴ء میں پیش آیا تھا جب جنوبی اسرائیل کے سدے تیمن حراستی مرکز میں غزہ کے ایک فلسطینی قیدی کو تشدد اور اجتماعی جنسی زیادتی کا نشانہ بناتے ہوئے اسرائیلی فوجیوں کا ویڈیو لیک ہوگیا تھا۔ لیک ہونے والی فوٹیج نے عالمی سطح پر غم و غصے کو جنم دیا تھا اور اس معاملے میں پانچ ریزروسٹوں پر فرد جرم عائد کی گئی، جن میں سے ایک نے قیدی کے عضو مخصوص کے قریب ایک تیز دھار دار چیز سے وار کیا تھا۔

یہ بھی پڑھئے: بھوک کی وجہ خوراک کی کمی نہیں، غلط پالیسیاں اور ناانصافیاں ہیں: اقوام متحدہ

نیتن یاہو نے جرم کی مذمت کی نہیں کی لیکن اسے ’اسرائیل کی شبیہ کو بہت زیادہ متاثر کرنے والا‘ قرار دیا

اس اسکینڈل پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے، اسرائیلی وزیر اعظم بنجامن نیتن یاہو نے جرم کی مذمت نہیں کی لیکن جرم کا ویڈیو کے لیک ہونے کی مذمت کی اور اسے ”اسرائیل کی جدید تاریخ کے سب سے زیادہ نقصان دہ واقعات میں سے ایک“ قرار دیا۔ اتوار کو کابینہ کے اجلاس کے بعد خطاب کرتے ہوئے، نیتن یاہو نے کہا کہ ”یہ شاید اسرائیل کی بنیاد رکھے جانے کے بعد سے سب سے شدید حملہ ہے۔“ انہوں نے دلیل دی کہ ویڈیو کے لیک ہونے سے اسرائیل کی عالمی ساکھ اور اس کی فوج کی ساکھ کو شدید نقصان پہنچا ہے۔ 

تاہم، ناقدین کا کہنا ہے کہ نیتن یاہو کا بیان، ان جرائم سے توجہ ہٹانے کی اسرائیلی کوششوں کی عکاسی کرتا ہے۔ تجزیہ کاروں نے نوٹ کیا کہ حکومتی عہدیدار اور فوج کے حامی تبصرہ نگار، فوٹیج میں دکھائے گئے تشدد اور جنسی زیادتی پر توجہ مرکوز کرنے کے بجائے ’خطرے کی گھنٹی بجانے والوں‘ کو سزا دینے پر زیادہ توجہ دے رہے ہیں۔ 

یہ بھی پڑھئے: غزہ: اسرائیل نے انسانی زندگی کے ’’۳۰؍ لاکھ سے زائد سال‘‘ ضائع کردیئے

ویڈیو لیک کرنے پر اسرائیل نے سابق پراسیکیوٹر کو گرفتار کرلیا

اسرائیلی پولیس نے سابق فوجی پراسیکیوٹر یفات تومیر-یروشالمی کو گرفتار کر لیا ہے جس کے بعد یہ تنازع مزید بڑھ گیا ہے۔ انہوں نے اعتراف کیا تھا کہ انہوں نے ہی اس فوٹیج کو جاری کرنے کی اجازت دی تھی۔ اس ویڈیو کی اشاعت نے فلسطینی قیدیوں کے ساتھ ہونے والے وحشیانہ سلوک کو بے نقاب کیا ہے جس کی رپورٹیں انسانی حقوق کی تنظیمیں طویل عرصے سے دے رہی تھیں۔

تومیر-یروشالمی نے کہا کہ انہوں نے یہ ویڈیو ”قانون نافذ کرنے والے اداروں کے خلاف جھوٹے پروپیگنڈے کا مقابلہ کرنے کیلئے“ جاری کیا تھا۔ انہوں نے بعد میں استعفیٰ دے دیا اور انہیں عہدے کا غلط استعمال اور انصاف کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے کے الزامات کے تحت گرفتار کیا گیا۔ ایک اور سابق پراسیکیوٹر، کرنل متان سلومیش کو بھی اس کیس کے سلسلے میں حراست میں لیا گیا۔ اسرائیلی میڈیا کے مطابق، تومیر-یروشالمی کی حراست میں توسیع کر دی گئی ہے اور وہ فی الحال ایک حراستی مرکز میں زیرِ نگرانی ہیں۔

یہ بھی پڑھئے: تباہ حال غزہ میں ۲؍ سال بعد تعلیمی سرگرمیاں بحال، اسکولوں میں رونق

اسرائیلی جیلوں میں تشدد ’منظم‘ ہے: اقوام متحدہ

اقوام متحدہ کے ایک کمیشن نے اکتوبر ۲۰۲۴ء میں رپورٹ کیا تھا کہ اسرائیلی فوجی کیمپوں اور جیلوں میں ہزاروں فلسطینی قیدیوں کو ”وسیع پیمانے پر اور منظم تشدد“ کا نشانہ بنایا گیا۔ کمیشن نے ان زیادتیوں کو ”جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم“ قرار دیا۔ اس وقت اسرائیل میں خواتین اور بچوں سمیت دس ہزار سے زائد فلسطینی قید ہیں جن میں سے بیشتر قیدیوں کو تشدد، بھوک اور طبی غفلت کا سامنا ہے۔ اقوام متحدہ نے اکتوبر ۲۰۲۳ء سے اب تک اسرائیلی حراست میں کم از کم ۷۵ فلسطینیوں کی اموات کی تصدیق کی ہے۔

یہ بھی پڑھئے: اسرائیلی فوج نے ۱۰؍اکتوبر سے غزہ میں جنگ بندی کی ۱۹۴؍ خلاف ورزیاں کیں: حکام

عالمی سطح پر اسرائیل کے شبیہہ متاثر

اس اسکینڈل نے غزہ میں نسل کشی کے الزامات کے درمیان اسرائیل کی بڑھتی ہوئی بین الاقوامی تنہائی میں اضافہ کیا ہے۔ فلسطینی حکام کے مطابق، اکتوبر ۲۰۲۳ء سے اب تک اسرائیلی افواج نے غزہ میں تقریباً ۷۰ ہزار فلسطینیوں کو ہلاک کیا ہے جن میں بیشتر خواتین اور بچے ہیں، جبکہ ان جنگی کارروائیوں میں ایک لاکھ ۷۰ ہزار سے زائد افراد زخمی ہوئے ہیں۔ 

انسانی حقوق کے ماہرین کا کہنا ہے کہ سدے تیمن کا یہ کیس ظاہر کرتا ہے کہ کس طرح منظم تشدد، جنسی زیادتی اور سزا سے آزادی اسرائیلی فوجی نظام کے اندر ’پختہ‘ ہو چکی ہے۔ بین الاقوامی برادری نے اسرائیل سے اس معاملے کی آزادانہ تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے لیکن اب تک صہیونی ریاست نے کسی بھی بیرونی جانچ کو قبول کرنے سے انکار کیا ہے۔ اسرائیلی روزنامہ ’ہاریٹز‘ کی کالم نگار یوانا گونن نے لکھا کہ ”دنیا نے وہ دیکھ لیا جو اسرائیل چھپانے کی کوشش کر رہا تھا۔ اور اب، انصاف کے بجائے، صرف انکار ہے۔“

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK