جاپان میں ۲۰۲۵ء میں بچوں کی شرح پیدائش ریکارڈ حد تک کم رہی، جس کے سبب مستقبل میں ملک کی معیشت چلانے کیلئے لوگ دستیاب نہیں ہوں گے۔
EPAPER
Updated: December 31, 2025, 2:57 PM IST | Tokyo
جاپان میں ۲۰۲۵ء میں بچوں کی شرح پیدائش ریکارڈ حد تک کم رہی، جس کے سبب مستقبل میں ملک کی معیشت چلانے کیلئے لوگ دستیاب نہیں ہوں گے۔
جاپان میں سال ۲۰۲۵ءمیں پیدا ہونے والے بچوں کی تعداد۶۷۰۰۰۰ سے بھی کم رہنے کی اطلاعات ہیں، جو ایک نیا ریکارڈ ہے۔ یہ صورتحال معیشت پر دباؤ ڈال رہی ہے اور ملک کو خودکار مشینوں (آٹومیشن) اور تارکین وطن پر انحصار کرنے پر مجبور کر رہی ہے۔۱۹۹۱ء میں قومی ریکارڈ شروع ہونے کے بعد سے اب تک کی کم ترین تعداد ہے۔ ساتھ ہی یہ حکومت کے سب سے مایوس کن اندازوں سے بھی بدتر ہے۔ آبادی میں یہ تیز رفتار کمی ایک پریشان کن سوال کھڑا کر رہی ہے، کہ کیا جاپان اتنی کم نوجوان آبادی کے ساتھ اپنی معیشت اور معاشرے کو برقرار رکھ سکتا ہے؟ یہاں آبادی کے بحران کی علامات اور ممکنہ نتائج کا تجزیہ پیش کیا جارہا ہے۔
یہ بھی پڑھئے: لندن: نسلی تعصب کے شکار ملازم کو کے ایف سی ۸۱؍ لاکھ روپے معاوضہ دے گا
آبادی کے بحران کا پس منظر:
جاپان کی آبادی مسلسل کم ہو رہی ہے۔ ۲۰۲۴ءمیں صرف ایک سال میں اموات کی تعداد پیدائش سے تقریباً دس لاکھ زیادہ تھی۔ ایک مرتبہ۱۲۸؍ ملین تک پہنچنے والی آبادی اب تقریباً۱۲۳؍ ملین رہ گئی ہے اور اس میں مسلسل کمی آ رہی ہے۔
وجوہات اور چیلنجز:
جاپانی خواتین میں شرح پیدائش ایک اعشاریہ ۱۴؍ بچے فی خاتون کے قریب ہے، جو کہ آبادی کو مستقل رکھنے کے لیے درکار۲؍ اعشاریہ ۱؍ کی سطح سے بہت کم ہے۔
معاشی و سماجی دباؤ:
معاشی غیر یقینی، رہائش اور بچوں کی پرورش کے اخراجات، کام کےلمبے اوقات ، اور کام و زندگی کا توازن نہ ہونا نوجوانوں کو شادی اور خاندانی نظام قائم کرنے سے روک رہے ہیں`
افرادی قوت کی کمی:
کم نوجوانوں کی وجہ سے مینوفیکچرنگ، تعمیرات، زراعت، دیکھ بھال اور خدمات جیسے شعبوں میں مزدوروں کی شدید قلت کا سامنا ہے۔
بڑھتی عمر کی آبادی:
۲۰۲۵ء تک ۶۵؍ سال سے زیادہ عمر کے افراد کل آبادی کا تقریباً ۲۹؍ فیصد ہیں۔ کم کام کرنے والی آبادی سے پنشن، صحت اور بزرگوں کی دیکھ بھال کے سرکاری اخرجات پورے کرنا مشکل ہورہا ہے۔
ممکنہ حل، خودکاری اور ٹیکنالوجی:
جاپان خودکار مشینوں اور روبوٹکس میں ایک عالمی طاقت ہے۔ وزیراعظم سانائی تاکائیچی نے مزدووں کی کمی سے نمٹنے کے لیے آرٹیفیشل انٹیلی جنس (AI) کو ترجیح دینے کی حکمت عملی کا بھی اعلان کیا ہے۔ تاہم، ماہرین کا خیال ہے کہ صحت کی دیکھ بھال جیسے شعبوں میں انسانی ہمدردی اور تعلق کو مشینوں سے مکمل طور پر تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔
یہ بھی پڑھئے: صومالیہ ایک ہے اور ایک ہی رہے گا: نیتن یاہو کے خلاف ملک بھر میں شہریوں کا احتجاج
ہجرت:
پیشہ ور افراد کی کمی سے نمٹنے کے لیے جاپان نے قواعد میں نرمی کی ہے۔ ملک میں غیر ملکی مزدوروں کی تعداد ۳۶؍ لاکھ کے ریکارڈ سطح پر پہنچ چکی ہے۔ حکومت نے فیصل۲۰۲۸ء تک ایک نئے نظام کے تحت ایک اعشاریہ ۲۳؍ ملین غیر ملکی مزدوروں کو قبول کرنے کا منصوبہ پیش کیا ہے۔ تاہم، ہجرت کو بڑے پیمانے پر مستقل آبادکاری کی بجائے ایک لیبر حل کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔
ثقافتی خدشات، زبان کی رکاوٹیں اور سیاسی حساسیت اس کی بڑی وجوہات ہیں۔· سماجی اصلاحات: حکومت کی جانب سے بچوں کے الاؤنس میں اضافہ، زیادہ چائلڈ کیئر سینٹر قائم کرنے اور کام و زندگی کا توازن بہتر بنانے کے لیے ثقافتی اصلاحات سمیت اقدامات کئے گئے ہیں۔
تاہم، اکثر ماہرین کا خیال ہے کہ بناگہری ثقافتی تبدیلی کے، محض مالی اقدامات کافی نہیں ہوں گے۔ بزرگوں اور خواتین کو لیبر فورس میں شامل کرنا:
لیبر فورس بڑھانے کے لیے ریٹائرمنٹ کی عمر بڑھانے اور بزرگ شہریوں کو جز وقتی کام پر رکھنے کے اقدامات کئے جا رہے ہیں۔ خواتین کی لیبر فورس میں شرکت کو بڑھانے اور صنفی مساوات کو بہتر بنانا ایک اور اہم ہدف ہے۔
کیا جاپان کی معیشت ناکام ہوجائے گی؟
جاپان ایک ٹیکنالوجی پر مبنی طاقت ہے، اس لیے معیشت کے مکمل گرنے کا امکان نہیں ہے۔ تاہم، آبادی کی کمی سے جاپان کو اقتصادی جمود (اسٹیگنیشن) کا سامنا ہو سکتا ہے۔
تاہم آبادی میں کمی کو ایک موقع کے طور پر بھی دیکھا جا رہا ہے، کچھ ماہرین کے نزدیک، کم آبادی کا مطلب وسائل پرکم دباؤ اور ماحول پر مثبت اثر ہو سکتا ہے۔ یہ ایک ایسی معیشت کی طرف منتقلی کا موقع بھی ہو سکتا ہے جو پائیدارمعیار زندگی پر مرکوز ہو۔
نتیجہ:
جاپان کی آبادی کا بحران اب مستقبل کا مسئلہ نہیں رہا بلکہ ایک واضح اور موجودہ خطرہ ہے۔ ملک خودکار مشینوں، سماجی اصلاحات اور تارکین وطن کے درمیان کس طرح توازن قائم کرتا ہے، یہی اس بات کا تعین کرے گا کہ آیا یہ بحران معاشی تاریکی لائے گا یا اس سے بآثر طریقے سے نمٹا جائے گا۔