Updated: October 23, 2025, 10:00 PM IST
| Jerusalem
یروشلم گورنریٹ نے خبردار کیا ہے کہ مسجد اقصیٰ کے نیچے، اس کے اردگرد اور پرانے شہر میں جاری اسرائیلی کھدائیوں سے یروشلم کے اسلامی و تاریخی آثار کو شدید نقصان پہنچنے کا خدشہ ہے۔ گورنریٹ کے مطابق یہ سرگرمیاں یروشلم کو یہودیانے اور اس کے مذہبی و ثقافتی تشخص کو تبدیل کرنے کے اسرائیلی منصوبے کا حصہ ہیں۔
مسجد اقصیٰ۔ تصویر: آئی این این
یروشلم گورنریٹ کے مشیر معروف الریفائی نے فلسطینی خبر رساں ایجنسی وفا کو دیئے گئے انٹرویو میں انکشاف کیا کہ اسرائیل پرانے شہر میں زیرِ زمین سرنگوں کی کھدائی کر رہا ہے، جن کا مقصد نوآبادیاتی مقامات کو جوڑ کر شہر کے فلسطینی اور اسلامی شناخت کو مسخ کرنا ہے۔ الریفائی کے مطابق یہ سرنگیں ان علاقوں کو آپس میں ملاتی ہیں جنہیں اسرائیل ’’داؤد کا شہر‘‘ قرار دیتا ہے۔ یہ گزرگاہیں دراصل قدیم آبی راستے تھے جنہیں بعد ازاں تبدیل کر کے سرنگوں، میوزیمز اور عبادت گاہوں میں بدل دیا گیا، جبکہ ایک حصے کو ’’جبانہ مارکیٹ‘‘ کے نام سے یہودی سیاحتی راہداری میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔ انہوں نے خبردار کیا کہ یہ کھدائی مسجد اقصیٰ کی بنیادوں کو غیر مستحکم کر سکتی ہیں، جس سے اس کے اطراف کے تاریخی مکانات، قدیم اسکول اور دیگر اسلامی ورثے کے مقامات کو نقصان پہنچنے کا شدید خدشہ ہے۔ ان کے بقول ’’یہ کام سائنسی اصولوں کے مطابق نہیں ہو رہے اور نہ ہی بین الاقوامی قوانین کی پابندی کی جا رہی ہے۔ یہ یروشلم کے مقدس مقامات پر قائم جمود کی کھلی خلاف ورزی ہے۔‘‘
یہ بھی پڑھئے: آئی سی جے نے فلسطینی علاقوں میں اسرائیل کے نسل کشی کے ارتکاب کی تصدیق کی، اسرائیل کی سخت مذمت کی
الریفائی نے مزید کہا کہ ان سرنگوں کا مقصد ’’یروشلم کے فلسطینی و اسلامی کردار کو مٹانا اور مقدس مقامات پر اسرائیلی کنٹرول مسلط کرنا‘‘ ہے۔ ان کے مطابق یہ کھدائی خفیہ طور پر، بین الاقوامی نگرانی کے بغیر جاری ہے، جس سے مسجد اقصیٰ کے ساختی استحکام کو شدید خطرہ لاحق ہے۔ المملکہ ٹی وی سے گفتگو میں الریفائی نے تصدیق کی کہ کھدائی کے نتیجے میں پیدا ہونے والی دراڑوں سے مسجد کے بعض حصوں کے منہدم ہونے کا خطرہ بڑھ گیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ یہ تمام منصوبے اسرائیلی حکومت کے براہِ راست مالی تعاون سے کئے جا رہے ہیں، جن کا مقصد پرانے شہر کی تاریخی اور جغرافیائی شناخت کو تبدیل کرنا ہے۔ انہوں نے انکشاف کیا کہ سب سے مہنگے منصوبوں میں سے ایک ’’پیلگریمز روڈ سرنگ‘‘ ہے، جو سلوان کے علاقے میں مسجد اقصیٰ کے جنوب میں واقع ہے۔ اس منصوبے پر تقریباً ۵۰؍ ملین شیکل لاگت آئی ہے اور یہ مغربی دروازے سے مغربی دیوار تک تقریباً ۶۰۰؍ میٹر تک پھیلی ہوئی ہے۔
الریفائی نے دیگر سرنگوں کا بھی ذکر کیا، جن میں ہسمونین ٹنل شامل ہے جو مسجد اقصیٰ کی مغربی دیوار کے متوازی چلتی ہے اور ویایا ڈولوروسا کے راستے سے جڑتی ہے۔ اس میں قدیم آثار جیسے رابنسن آرچ، جنریشنز پِٹ اور ایک رومن تھیٹر بھی شامل ہیں۔ ان کے مطابق، یہ تمام منصوبے مشرقی یروشلم کی آبادیاتی اور تعمیراتی شناخت کو تبدیل کرنے کے ایک منظم اسرائیلی پروگرام کا حصہ ہیں، جو ۶؍ سے ۱۵؍ میٹر گہرائی تک زیرِ زمین اہم ورثہ والے علاقوں میں پھیلے ہوئے ہیں۔ انہوں نے زور دیا کہ ’’یہ آثارِ قدیمہ کے کام نہیں، بلکہ سیاسی منصوبے ہیں جو اسرائیل کے تسلط کو مضبوط کرنے اور یروشلم کی تاریخ کو دوبارہ لکھنے کیلئے بنائے گئے ہیں۔‘‘
یہ بھی پڑھئے: اسرائیل کا مغربی کنارے کے انضمام سے متعلق اقدام امن معاہدےکیلئے خطرہ: مارکوروبیو
یروشلم گورنریٹ نے اقوامِ متحدہ اور یونیسکو سے ایک بار پھر مطالبہ کیا ہے کہ وہ فوری طور پر کھدائی کو روکنے کیلئے بین الاقوامی نگرانی یقینی بنائیں اور مسجد اقصیٰ سمیت یروشلم کے تاریخی ورثے کو ناقابلِ تلافی نقصان سے بچائیں۔ یاد رہے کہ اگست میں بھی یروشلم گورنریٹ نے اسی نوعیت کے خدشات کا اظہار اس وقت کیا تھا جب لیک ہونے والے ویڈیوز میں اسرائیلی فورسیز کو مسجد اقصیٰ کے نیچے غیر مجاز کھدائی کرتے دیکھا گیا تھا۔ اس موقع پر گورنریٹ نے اسرائیل پر الزام لگایا تھا کہ وہ اموی دور سے تعلق رکھنے والے اسلامی نوادرات کو تباہ کر رہا ہے تاکہ ’’ٹیمپل ماؤنٹ‘‘ کی یہودی کہانی کو تقویت دے سکے۔
خیال رہے کہ مسجد اقصیٰ، جو مقبوضہ مشرقی یروشلم میں واقع ہے، اسلام کا تیسرا مقدس ترین مقام ہے۔ یہی علاقہ یہودیوں کے نزدیک ’’ٹیمپل ماؤنٹ‘‘ کہلاتا ہے، جہاں ان کے عقیدے کے مطابق دو قدیم مندر موجود تھے۔ اسرائیل نے ۱۹۶۷ء کی عرب اسرائیل جنگ کے دوران مشرقی یروشلم پر قبضہ کیا اور بعد ازاں ۱۹۸۰ء میں اس کا غیر قانونی الحاق کیا، یہ ایک ایسا اقدام جسے عالمی برادری نے آج تک تسلیم نہیں کیا۔