Updated: November 10, 2025, 9:51 PM IST
| Washington
امریکی خبر رساں ادارے ہف پوسٹ کی رپورٹ کے مطابق سابق امریکی صدر جو بائیڈن نے وہ خفیہ انٹیلی جنس رپورٹ دیکھی تھی جس میں بتایا گیا تھا کہ اسرائیلی حکام خود جانتے تھے کہ غزہ میں ان کی کارروائیاں امریکی اور بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کر سکتی ہیں۔ تاہم، بائیڈن نے مبینہ طور پر اپنے مشیروں کی ان سفارشات کو مسترد کیا جن میں امریکہ کی ممکنہ قانونی ذمہ داری سے بچنے کیلئے اسرائیل کے ساتھ انٹیلی جنس شیئرنگ محدود کرنے کی تجویز دی گئی تھی۔
جو بائیڈن۔ تصویر: آئی این این
ہف پوسٹ نے سابق امریکی حکام کے حوالے سے دعویٰ کیا ہے کہ صدر جو بائیڈن کے دورِ حکومت میں انہیں ایسی خفیہ انٹیلی جنس رپورٹس پیش کی گئیں جن سے ظاہر ہوتا تھا کہ اسرائیلی قیادت کو اچھی طرح معلوم تھا کہ غزہ میں ان کے فوجی اقدامات ممکنہ طور پر بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کے زمرے میں آتے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق بائیڈن کو دی جانے والی انٹیلی جنس میں اسرائیلی حکومت کی اپنی اندرونی تشخیص شامل تھی جس میں غزہ پر بڑے پیمانے کے حملے، انسانی امداد کی شدید پابندیاں، اور فلسطینیوں کے ساتھ غیر انسانی سلوک جیسے اقدامات کا ذکر تھا۔ ایک سابق امریکی اہلکار نے بتایا کہ یہ مواد ’’انتہائی حساس اور سنگین‘‘ نوعیت کا تھا، جس پر فوری انٹر ایجنسی میٹنگ بلائی گئی، جس میں خود بائیڈن بھی شریک تھے۔ اس اجلاس میں امریکہ کی ممکنہ قانونی ذمہ داری پر بات ہوئی، اور بعض مشیروں نے تجویز دی کہ اسرائیل کے ساتھ انٹیلی جنس معلومات کی فراہمی محدود کی جائے تاکہ واشنگٹن کسی بھی ممکنہ بین الاقوامی مقدمے سے بچ سکے۔
یہ بھی پڑھئے: جنگ بندی کی خلاف ورزیاں، غزہ پر اسرائیلی حملے شدید تر
ایک اور سابق اہلکار نے کہا کہ ’’یہ واضح تھا کہ اسرائیلی حکومت کو اچھی طرح معلوم ہے کہ ان کے اقدامات قانونی لحاظ سے قابلِ اعتراض ہیں۔‘‘ رپورٹ کے مطابق، سابق وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے بھی اندرونی سطح پر اس امکان کا اظہار کیا کہ اسرائیل نسلی صفائی کا مرتکب ہو رہا ہے، یہ اصطلاح امریکی محکمہ خارجہ کے کچھ سینئر اہلکار اسرائیلی پالیسیوں کی وضاحت کیلئے استعمال کر رہے تھے۔ مزید بتایا گیا کہ امریکی انٹیلی جنس نے اسرائیلی حکام کے ’’مخصوص محرکات‘‘ کے ثبوت بھی فراہم کئے، جس سے ظاہر ہوتا تھا کہ کچھ اقدامات ارادے کے ساتھ کئے جا رہے تھے۔ تاہم، اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ اور یو ایس ایڈ کے عملے کے درمیان اختلاف پایا گیا کہ کیا ان معلومات کے باوجود امریکہ کی پالیسی قانونی طور پر غلط قرار دی جا سکتی ہے۔
یہ بھی پڑھئے: اسرائیلی فوج کی سابق اعلیٰ قانونی افسر یفعات تومر کی خودکشی کی کوشش، اسپتال داخل
ایک سابق سینئر اہلکار نے کہا کہ کئی افسران کو یہ تشویش تھی کہ اگر وہ اسرائیل کے خلاف سخت موقف اختیار کریں تو اس سے ان کے مستقبل کے کیریئر کے امکانات متاثر ہو سکتے ہیں۔ ہف پوسٹ کے مطابق، نہ بائیڈن، نہ بلنکن، اور نہ ہی اسرائیلی سفارت خانہ یا امریکی محکمہ خارجہ نے اس رپورٹ پر کوئی تبصرہ کیا۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ اکتوبر ۲۰۲۳ء سے جاری اسرائیلی حملوں میں ۶۹؍ ہزار سے زائد فلسطینی ہلاک اور ایک لاکھ ۷۰؍ ہزار ۶۰۰؍ سے زیادہ زخمی ہو چکے ہیں، جن میں زیادہ تر خواتین اور بچے شامل ہیں۔ یہ انکشافات امریکی پالیسی میں دوہرے معیار، اور اسرائیلی جارحیت پر خاموش حمایت کے حوالے سے نئے سوالات اٹھا رہے ہیں۔