کیرالا یونیورسٹی اور یونیورسٹی آف کالی کٹ کے انتظامیہ کی جانب سے کشمیر اور پہلگام حملہ پر سیمینار منسوخ کرنے کے فیصلے پر تنقید کی جارہی ہے۔ طلبہ کے وسیع پیمانے پر احتجاج کے درمیان تعلیمی حلقوں کی جانب سے یونیورسٹی انتظامیہ پر سیاسی تعصب اور اختلاف رائے کو دبانے کے الزامات عائد کئے جارہے ہیں۔
کیرالا یونیورسٹی اور یونیورسٹی آف کالی کٹ کے وائس چانسلرز نے کشمیر اور گزشتہ ماہ پہلگام میں ہوئے دہشت گردانہ حملہ سے متعلق سیمینار منسوخ کر دیئے ہیں۔ دونوں اداروں کے وائس چانسلرز نے قومی سلامتی کے خدشات کا حوالہ دیا جبکہ ایک نے مجوزہ پروگرام کو "ملک مخالف" قرار دیا۔ یونیورسٹی کا یہ اقدام ہندوستانی حکومت پر تنقیدی پوسٹرز اور مضامین کے بعد سامنے آیا ہے جس کے بعد یونیورسٹی انتظامیہ کو طلبہ تنظیموں اور ماہرینِ تعلیم کی جانب سے شدید تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ اس فیصلہ نے وسیع پیمانے پر احتجاج کو جنم دیا ہے اور تعلیمی حلقوں کی جانب سے یونیورسٹی انتظامیہ پر سیاسی تعصب اور اختلاف رائے کو دبانے کے الزامات عائد کئے جارہے ہیں۔
کیرالا یونیورسٹی نے سیمینار کو "ملک مخالف" قرار دیا
کیرالا یونیورسٹی میں حالیہ پہلگام حملے کے تناظر میں تمل ڈیپارٹمنٹ کے ایک سیمینار کی منسوخی کے بعد تنازع کھڑا ہوگیا۔ ۹ مئی کو طے شدہ پروگرام کو قائم مقام وائس چانسلر موہنن کنومل نے "ملک مخالف" قرار دیتے ہوئے روک دیا۔ یونیورسٹی نے پروگرام کے منتظم ریسرچ اسکالر یا ڈپارٹمنٹ کے سربراہ کے خلاف رسمی کارروائی سے گریز کیا لیکن اس پیش رفت نے شدید سیاسی ردعمل کو جنم دیا۔ اسٹوڈنٹس فیڈریشن آف انڈیا (ایس ایف آئی) نے وائس چانسلر کی سخت مذمت کی اور ان پر آر ایس ایس کے نظریات کے ساتھ وابستگی کا الزام لگایا۔
یہ بھی پڑھئے: پہلگام حملے کے بعد کشمیریوں کے خلاف نفرت انگیز واقعات میں اضافہ
تنازع اس وقت شروع ہوا جب یونیورسٹی کے تمل ڈپارٹمنٹ کے `فرائیڈے لٹریری سرکل` کے تحت ایک بحث کیلئے نوٹس جاری کیا گیا۔ منتظمین نے ایک تمل ویب سائٹ سے "پہلگام حملہ: قوم پرستانہ جنون میں ڈوبی سچائیاں" کے عنوان سے ایک مضمون کا لنک بھی شیئر کیا۔ مضمون میں مرکز کی نریندر مودی حکومت پر بہار انتخابات کے تناظر میں قوم پرستانہ جذبات کا فاہدہ اٹھانے کا الزام لگایا گیا۔ اس کے بعد، پروفیسر کنومل نے یونیورسٹی رجسٹرار کو پروگرام منسوخ کرنے اور ڈپارٹمنٹ کے سربراہ ہیپسی روز میری اے سے وضاحت طلب کرنے کی ہدایت دی۔ روز میری اے نے افسوس کا اظہار کیا اور واضح کیا کہ پروگرام ان کے علم کے بغیر منعقد کیا گیا تھا۔ پروگرام کے منتظم ریسرچ اسکالر نے بھی معافی مانگی۔ ان کے بیانات کو مدنظر رکھتے ہوئے، یونیورسٹی نے تادیبی اقدامات سے گریز کیا۔ تاہم، وائس چانسلر نے اس واقعے کی رپورٹ چانسلر کو پیش کی۔
جواب میں، ایس ایف آئی نے پروفیسر کنومل پر سیاسی مقاصد کیلئے آزادی اظہار کو دبانے کا الزام لگایا۔ طلبہ تنظیم نے یونیورسٹی انتظامیہ سے باضابطہ معافی کا مطالبہ کیا اور الزام لگایا کہ طلبہ کو "ملک مخالف" کہا گیا اور قومی تحقیقاتی ایجنسی (این آئی اے) کی تحقیقات کے دھمکیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ تنظیم نے وائس چانسلر کے خلاف ریاستی سطح پر احتجاج کا اعلان کیا۔ پروفیسر کنومل نے ان الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ انہیں اسی طرح کے پروگراموں کے حوالے سے طلبہ کی متعدد شکایات موصول ہوئی تھیں۔ نتیجتاً، انہوں نے رجسٹرار کو گزشتہ سال کے دوران تمام ڈپارٹمنٹس میں منعقدہ سیمینارز اور پروگراموں کا آڈٹ کرنے کی ہدایت دی۔ یہ اندرونی تحقیقات اس بات کی بھی جانچ کرے گی کہ آیا طلبہ کا ڈپارٹمنٹ کے سربراہوں کی رضامندی یا علم کے بغیر پروگرام منعقد کرنے کے واقعات متعدد دفعہ پیش آئے ہیں۔ اپنے فیصلے کا جواز پیش کرتے ہوئے، پروفیسر کنومل نے کہا، "جو اب امن کی بات کر رہے ہیں، وہ پہلے اسرائیل پر حماس کے حملے کی حمایت کر رہے تھے۔ یہ ایک سیاسی ایجنڈے کا حصہ ہیں۔" انہوں نے مزید کہا، "یونیورسٹی کیلئے اس پروگرام کی اجازت دینا نامناسب ہوگا جس میں پہلگام حملے کے بدلے میں شروع کئے گئے آپریشن سندور پر تنقید کی جائے۔"
یہ بھی پڑھئے: آپریشن سندور کا اثر: اتر پردیش میں ۱۷ نومولود بچیوں کا نام "سندور" رکھا گیا
یونیورسٹی آف کالی کٹ میں کشمیریت پر سیمینار منسوخ
دریں اثنا، کیرالا کی یونیورسٹی آف کالی کٹ کو بھی کشمیر سے متعلق ایک سیمینار کی منسوخی پر تنقید کا سامنا کرنا پڑا جو ای ایم ایس چیئر فار مارکسین اسٹڈیز کے زیر اہتمام ۱۵ مئی کو منعقد کیا جانا تھا۔ ذرائع کے مطابق، سیمینار کا موضوع کشمیر میں مبینہ نسل کشی پر مبنی تھا۔ یونیورسٹی کے وائس چانسلر پی. رویندرن، جو ای ایم ایس چیئر کے چیئرمین بھی ہیں، نے مبینہ طور پر ملک کے موجودہ سماجی-سیاسی حالات کا حوالہ دیتے ہوئے اس تجویز کو مسترد کر دیا۔ سیمینار میں معروف نسوانی حقوق کی کارکن، سابق پلاننگ کمیشن کی رکن اور پدم شری ایوارڈ یافتہ سیدہ سعیدین حمید بطور مقرر شرکے کرنے والی تھیں۔
یونیورسٹی حکام کے مطابق، اس پروگرام کے متعلق وائس چانسلر کو پیشگی اطلاع نہیں دی گئی تھی۔ پروگرام سے آگاہی کے بعد، پروفیسر رویندرن نے متعلقہ دستاویزات کا جائزہ لیا اور سیمینار کے انعقاد کی منظوری دینے سے انکار کردیا۔ یونیورسٹی کے ایک سینئر عہدیدار نے واضح کیا، "پروگرام کے پوسٹر میں `کشمیر میں قتل روکو` کا نعرہ درج ہے جو بہت گمراہ کن ہے۔ ملک ایک خاص صورتحال سے گزر رہا ہے اور اس وقت ایسا پروگرام منعقد کرنا مناسب نہیں ہے۔"
یہ بھی پڑھئے: پہلگام حملے کے بعد مسلم مخالف نفرت انگیز جرائم کے ۱۸۴؍ واقعات
"کشمریت اور ہائپر میجوریٹیرئنزم" (کشمیریت اور انتہا درجہ کی اکثریت پسندی) کے عنوان سے یہ سیشن وائس چانسلر کی مداخلت کے بعد منسوخ کر دیا گیا۔ بائیں بازو کے ماہرین تعلیم نے یونیورسٹی حکام پر مرکزی حکومت کے دباؤ میں آکر تعلیمی اختلاف رائے کو دبانے کا الزام لگایا۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ سیدہ سعیدین حمید کی شمولیت کو روکنا یونیورسٹی کے حلقوں اور تعلیمی گفتگو کی آزادی پر بڑھتے کنٹرول کی نشاندہی کرتا ہے۔