Updated: September 12, 2025, 7:04 PM IST
| New York
امریکی ماہرِ قانون خالد بیضون کا کہنا ہے کہ اسرائیل کی غزہ پالیسی دراصل۱۱؍ ستمبر کے بعد امریکہ کی دہشت گردی کے خلاف جنگ کا تسلسل ہے۔ ان کے مطابق امریکہ نے جو قانونی و سیاسی ڈھانچہ بنایا تھا، اسی طرز پر اسرائیل آج فلسطینیوں کے خلاف کارروائیاں کر رہا ہے۔
اسکالر خالد بیضون۔ تصویر: آئی این این۔
ایریزونا اسٹیٹ یونیورسٹی کے ایک اسوسی ایٹ لاء پروفیسر نے اناطولیہ کو بتایا کہ اسرائیلی مہم کو غزہ کی پٹی میں امریکہ کی قیادت والی دہشت گردی کے خلاف جنگ کے ایک تسلسل کے طور پر دیکھا جانا چاہئے۔ خالد بیضون نے کہا کہ ۱۱؍ ستمبر کے دہشت گرد حملوں کے بعد امریکہ میں جو قانونی اور سیاسی ڈھانچہ بنایا گیا، اس نے مسلم شناخت کو مجرمانہ بنا دیا اور ایک ایسا ماڈل فراہم کیا جسے بعد میں امریکہ کے اتحادیوں نے، بشمول اسرائیل، اپنایا۔ انہوں نے کہا:’’میرا خیال ہے کہ کئی پہلوؤں سے دیکھا جائے تو، اگر امریکی جنگ بر دسہشت گردی نہ ہوتی تو اسرائیل اتنے غیر متناسب اور اتنی شدت کے ساتھ تشدد کو جاری نہ رکھ سکتا۔ ‘‘انہوں نے مزید کہا کہ ’’بہت سے پہلوؤں سے اس نے اسرائیل کو یہ اجازت دے دی ہے کہ وہ اس طرح کا درد پہنچائے کیونکہ دنیا کی بڑی تعداد مسلمانوں، عربوں اور فلسطینیوں کو دہشت گردی کی جنگ اور اس کے بیانیے کے نتیجے میں مکمل انسان نہیں سمجھتی۔ ‘‘
یہ بھی پڑھئے: غزہ پر اسرائیل کی تباہ کن بمباری کا سلسلہ جاری، حملے میں مزید۷۲؍ فلسطینی شہید ،سیکڑوں زخمی
بیضون، جو کتاب American Islamophobia: Understanding the Roots and Rise of Fear کے مصنف بھی ہیں، نے کہا کہ ۹-۱۱؍کے بعد پورا ایک قانونی ڈھانچہ بنایا گیا جس میں پیٹریاٹ ایکٹ، وفاقی نگرانی کے پروگرام، ڈپارٹمنٹ آف ہوم لینڈ سیکوریٹی کا قیام اور انسدادِ انتہاپسندی کی ایسی پہل شامل تھیں جنہوں نے مسلمانوں کو ایک دوسرے پر جاسوسی کرنے کی ترغیب دی۔ انہوں نے کہا کہ ان اقدامات نے مل کر امریکہ میں نسلی درجہ بندی کے ایک نئے ڈھانچے کو مضبوط کیاجس نے مسلم شناخت کے اظہار کو دہشت گردی کے ساتھ جوڑ دیا۔
یہ بھی پڑھئے: حوثی باغیوں کے ٹھکانوں پر اسرائیل کا حملہ ، ۳۵؍ افراد جاں بحق
انہوں نے کہا:’’جتنا زیادہ مسلمان اپنی شناخت کا آزادانہ طور پر اظہار کرتے، اتنا ہی انہیں ریاست کی نظر میں دہشت گردی کے تناظر میں دیکھا جاتا۔ ‘‘بیضون نے کہا کہ یہی بیانیہ اسرائیل کی ۷؍ اکتوبر ۲۰۲۳ء کی حماس کے حملے کے بعد کی تقریروں میں بھی نظر آتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسرائیلی لیڈران، بشمول وزیر اعظم بنجامن نیتن یاہو، نے امریکہ کی دہشت گردی کے خلاف جنگ کی زبان کو جوں کا توں اپنا لیا ہے، فلسطینیوں کو’انتہا پسند‘، ’انسانی جانور‘‘، یا’دہشت گرد‘ قرار دیا ہے۔ انہوں نے کہا:’’یہ اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کو عالمی بنانے کا امریکی منصوبہ کامیاب ہوا۔ اسرائیل، جو ایک اہم امریکی اتحادی اور اڈہ ہے، یہ ظاہر کرتا ہے کہ یہ بیانیہ نیتن یاہو حکومت کے ساتھ کس قدر ہم آہنگ ہے‘‘بیضون نے مزید کہا کہ افغانستان اور عراق کی جنگیں ’جدید نوآبادیاتی تجربات‘ کی نمائندگی کرتی ہیں، جو تیل اور خطے میں امریکی غلبے کے مفادات سے چلائی گئیں۔ انہوں نے کہا کہ یہی نوآبادیاتی ڈھانچہ آج غزہ میں اسرائیل کے غیر متناسب فوجی ردِعمل کو بھی واضح کرتا ہے۔