Updated: December 24, 2025, 10:22 PM IST
| Dhaka
محمد یونس کی عبوری حکومت نے ہجومی تشدد میں جاں بحق دیپو چندر داس کے اہلِ خانہ کی مکمل مالی اور فلاحی کفالت کا اعلان کیا ہے۔ حکومت نے واقعے کو بلاجواز جرم قرار دیتے ہوئے شفاف تحقیقات اور انصاف کی یقین دہانی کرائی ہے۔ تحقیقات کے مطابق توہینِ مذہب کا الزام ثابت نہیں ہوا، جبکہ اس سانحے پر ہندوستان سمیت عالمی سطح پر تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔
ہجومی تشدد میں جاں بحق ہونے والے ۲۵؍ سالہ دیپو چندر داس۔ تصویر: آئی این این
بنگلہ دیش میں محمد یونس کی عبوری حکومت نے ہجومی تشدد میں جاں بحق ہونے والے ۲۵؍ سالہ دیپو چندر داس کے اہلِ خانہ کی مکمل مالی اور فلاحی ذمہ داری اٹھانے کا باضابطہ اعلان کیا ہے۔ حکومت نے متاثرہ خاندان سے اظہارِ ہمدردی اور تعاون کے لیے اپنا وفد بھی روانہ کیا۔ ۲۳؍ دسمبر بروز منگل جاری بیان کے مطابق، محمد یونس نے تعلیمی امور کے مشیر سی آر ابرار کو دیپو چندر داس کے گھر بھیجا، جہاں انہوں نے اہلِ خانہ سے ملاقات کی۔ سی آر ابرار نے اس واقعے کو “بلاجواز اور وحشیانہ جرم” قرار دیا۔ یونس کے پریس ونگ نے واضح کیا کہ الزامات، افواہیں یا عقائد میں اختلاف کسی بھی صورت تشدد کا جواز نہیں بن سکتے اور کسی فرد کو قانون اپنے ہاتھ میں لینے کا حق حاصل نہیں۔ حکومتی بیان میں کہا گیا کہ قانون سب سے بالاتر ہے، واقعے کی مکمل اور شفاف تحقیقات کی جائیں گی اور انصاف کو یقینی بنایا جائے گا۔ حکام کے مطابق، اب تک اس قتل میں ملوث ہونے کے الزام میں ۱۲؍ افراد کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔ ملاقات کے دوران دیپو چندر داس کے والد ربی چندر داس نے انصاف کا مطالبہ کرتے ہوئے خاندان کو درپیش مشکلات سے حکام کو آگاہ کیا۔
یہ بھی پڑھئے: بنگلہ ویزا خدمات معطل؛ کولکاتا کے تاجر پریشان، بات چیت، تعاون پر زور
یہ افسوسناک واقعہ بنگلہ دیش میں اس وقت پیش آیا جب طلبہ کے حقوق کی حمایت کرنے والی سیاسی جماعت “انقلاب منچ” کے نمایاں رہنما شریف عثمان ہادی کے قتل کے بعد حالات کشیدہ ہو گئے۔ اسی پس منظر میں، میمن سنگھ شہر میں دیپو چندر داس کو ہجومی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ بعد ازاں سامنے آنے والی تحقیقاتی تفصیلات نے اس واقعے سے متعلق کئی دعوؤں پر سوالات اٹھا دیے۔ پولیس اور ریپڈ ایکشن بٹالین (RAB) نے بتایا کہ انہیں ایسا کوئی ثبوت نہیں ملا جس سے یہ ثابت ہو کہ دیپو چندر داس نے مذہب کی توہین کی تھی۔ میمن سنگھ کے ایڈیشنل سپرنٹنڈنٹ آف پولیس عبداللہ المامون کے مطابق، توہینِ مذہب کا الزام محض لفاظی ثابت ہوا ہے۔ تحقیقات میں یہ امکان بھی ظاہر کیا گیا ہے کہ دیپو کی موت اس فیکٹری کے اندرونی تنازعات سے جڑی ہو سکتی ہے جہاں وہ ملازم تھا۔
یہ بھی پڑھئے: بنگلہ دیش میں وقت پر انتخابات ہوں گے، قوم بے صبری سے انتظار کر رہی ہے: محمد یونس
ادھر، ۲۱؍ دسمبر کو ہندوستان نے بھی اس قتل پر گہری تشویش کا اظہار کیا۔ وزارتِ خارجہ کے ترجمان رندھیر جیسوال نے کہا کہ نئی دہلی بنگلہ دیش میں بدلتی صورتِ حال پر قریبی نظر رکھے ہوئے ہے۔ ان کے مطابق، ہندوستانی حکام بنگلہ دیشی حکام سے رابطے میں ہیں اور اقلیتوں کے خلاف تشدد پر شدید تشویش ظاہر کی گئی ہے۔ ترجمان نے اس بات پر زور دیا کہ دیپو چندر داس کے قاتلوں کو سزا دی جائے اور متاثرہ خاندان کو انصاف فراہم ہو۔ یہ واقعہ ایک بار پھر بنگلہ دیش میں ہجومی تشدد اور اقلیتوں کے تحفظ سے متعلق سنگین سوالات کو اجاگر کرتا ہے۔ عبوری حکومت کی جانب سے کفالت اور انصاف کی یقین دہانی ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب ملک اور خطے میں اس سانحے پر نظر رکھی جا رہی ہے۔