الہ آباد ہائی کورٹ نے فرقان نامی شخص کی ایک درخواست پر سماعت کرتے ہوئے یہ فیصلہ سنایا ہے جو اپنی پہلی شادی کو چھپا کر دوسری خاتون سے شادی کرنے اور رشتے کے دوران اس کی عصمت دری کے الزامات کے تحت فوجداری مقدمہ کا سامنا کررہا ہے۔
EPAPER
Updated: May 15, 2025, 6:03 PM IST | Inquilab News Network | Lucknow
الہ آباد ہائی کورٹ نے فرقان نامی شخص کی ایک درخواست پر سماعت کرتے ہوئے یہ فیصلہ سنایا ہے جو اپنی پہلی شادی کو چھپا کر دوسری خاتون سے شادی کرنے اور رشتے کے دوران اس کی عصمت دری کے الزامات کے تحت فوجداری مقدمہ کا سامنا کررہا ہے۔
اتر پردیش کی الہ آباد ہائی کورٹ نے اپنے ایک حالیہ فیصلے میں دوبارہ تصدیق کی کہ مسلم پرسنل لاء کے تحت ایک مسلمان مرد کو ایک سے زائد شادیوں کی اجازت ہے، بشرطیکہ وہ اپنی تمام بیویوں کے ساتھ یکساں اور برابری کا سلوک کرے۔ عدالت نے فرقان نامی شخص کی ایک درخواست پر سماعت کرتے ہوئے یہ فیصلہ سنایا ہے جو اپنی پہلی شادی کو چھپا کر دوسری خاتون سے شادی کرنے اور رشتے کے دوران اس کی عصمت دری کے الزامات کے تحت فوجداری مقدمہ کا سامنا کررہا ہے۔
فرقان کو مراد آباد کی ایک عدالت نے ۲۰۲۰ء میں ایک خاتون کے ذریعے دائر کی گئی شکایت کی بنیاد پر طلب کیا تھا جس میں فرقان پر الزام لگایا تھا کہ اس نے اپنی پہلی شادی کو ظاہر کئے بغیر خاتون سے شادی کی اور رشتے کے دوران اس کی عصمت دری کی۔ اس معاملے میں ایک چارج شیٹ دائر کی گئی اور فرقان سمیت دیگر ۲ افراد کے خلاف سمن جاری کئے گئے۔ تاہم، فرقان نے ان کارروائیوں کو ہائی کورٹ میں چیلنج کیا اور دعویٰ کیا کہ مسلم قانون کے تحت اسے چار شادیاں کرنے کی اجازت ہے۔
یہ بھی پڑھئے: بی جے پی وزیر کا کرنل صوفیہ پر نازیبا تبصرہ، عدالت کا معاملہ درج کرنے کا حکم
الہ آباد ہائی کورٹ میں اس کیس کی سماعت کرنے والے جسٹس ارون کمار سنگھ دیشوال نے کہا کہ ہندوستانی تعزیرات ہند کی دفعہ ۴۹۴، دو شادیوں کو جرم قرار دیتی ہے لیکن اگر پہلی شادی جائز ہو اور بعد کی شادیاں پرسنل لاء کے تحت جائز ہو تو تو یہاں دفعہ ۴۹۴ لاگو نہیں ہوتی۔ جج نے کہا، "اسلام میں تعدد ازدواج کی اجازت ہوس یا خواہش کی تکمیل کیلئے نہیں، بلکہ مخصوص تاریخی اور اخلاقی حالات میں دی گئی ہے۔"
۱۸ صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلے میں، عدالت نے تعدد ازدواج کے قرآنی تناظر پر غور کیا۔ جسٹس دیشوال نے نوٹ کیا کہ قرآن میں تعدد ازدواج کا ذکر صرف ایک بار آیا ہے اور یہ اس وقت جائز تھا جب ابتدائی لڑائیوں میں بہت سے مسلم مرد ہلاک ہوئے اور بیوائیں اور یتیم بچ گئے۔ جج نے واضح کیا، "یہ شق بیواؤں اور بچوں کو استحصال سے بچانے کیلئے تھی، ذاتی مفادات کو پورا کرنے کیلئے نہیں۔"
عدالت نے فیصلہ دیا کہ فرقان کی دوسری شادی جائز تھی کیونکہ دونوں خواتین مسلم تھیں۔ عدالت نے مزید کہا کہ عصمت دری کا الزام برقرار نہیں رہتا کیونکہ یہ رشتہ ازدواجی ڈھانچے کے اندر تھا۔ دفعہ ۴۹۴ (جو دو شادیوں کو جرم قرار دیتی ہے) کے تحت جرم صرف اس صورت میں ہوتا اگر پہلی شادی کو کالعدم قرار دیا گیا ہوتا جو اس کیس میں نہیں تھا۔
یہ بھی پڑھئے: جسٹس بھوشن رام کرشن گوئی نے چیف جسٹس آف انڈیا کے طور پر حلف لیا
عدالت نے فرقان کے خلاف چارج شیٹ، نوٹس اور سمن کو منسوخ کر دیا اور فیصلہ دیا کہ اس کے خلاف نہ تو دو شادیوں کا جرم بنتا ہے اور نہ ہی عصمت دری کا۔ اس معاملے کی اگلی سماعت ۲۶ مئی کو طے کی گئی ہے۔