• Fri, 05 December, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

این بی ڈی ایس اے نے پانچ نیوز چینل کو ’لو جہاد‘ پر مبنی پروگرام ہٹانے کا حکم دیا

Updated: December 05, 2025, 8:02 PM IST | New Delhi

نیشنل براڈکاسٹنگ ڈیجیٹل سٹینڈرڈز اتھارٹی (این بی ڈی ایس اے) نے پانچ نیوز چینل کو ’لو جہاد‘ پر مبنی پروگرام ہٹانے کا حکم دیا، ادارے کے مطابق انڈیا ٹی وی، نیوز۱۸؍ ایم پی/چھتیس گڑھ، زی ایم پی/چھتیس گڑھ، زی نیوز، اور اے بی پی نیوز کے آٹھ پروگراموں نے معروضی اور حقیقت پر مبنی رپورٹنگ کے معیارات کی خلاف ورزی کی ہے۔

Photo: X
تصویر: ایکس

نیشنل براڈکاسٹنگ ڈیجیٹل اسٹینڈرڈز اتھارٹی (این بی ڈی ایس اے) نے کہا ہے کہ انڈیا ٹی وی، نیوز ۱۸؍ایم پی/چھتیس گڑھ، زی ایم پی/چھتیس گڑھ، زی نیوز، اور اے بی پی نیوز کے آٹھ پروگراموں نے معروضی اور حقیقت پر مبنی رپورٹنگ کے معیارات کی خلاف ورزی کی ہے۔ ادارے نے انہیں یہ نشریات ہٹانے کا حکم دیا ہے جن میں ایک فرضی این سی ای آر ٹی کتاب کے خط کو ’’لو جہاد‘‘ کی سازشی تھیوری سے جوڑا گیا تھا۔ اس تھیوری کے مطابق مسلم مرد ہندو لڑکیوں کو محبت کے تعلقات کے ذریعے مذہبی تبدیلی کا نشانہ بناتے ہیں۔یہ حکم وکیل اندراجیت گھورپڑے اور اتکرش مشرا کی جانب سے دائر کی گئی شکایات پر جاری کیا گیا۔ شکایت میں کہا گیا تھا کہ چینلز نے ’’چٹّھی آئی ہے،‘‘(ایک خط آیا ہے) نامی بچوں کے ماحولیاتی مطالعے کے سبق کے گرد فرقہ وارانہ بیانیہ تخلیق کیا۔
شکایت کے مطابق، تمام آٹھ پروگراموں پریہ الزام ہے کہ ،انہوں نے رینا نامی ایک فرضی سوم جماعت کے کردار کے احمد نامی دوسرے کردار کو لکھے گئے خط سے ’’لو جہاد‘‘ کے ثبوت ملتے ہیں۔این بی ڈی ایس اے نےکہا کہ چینلز کے اسٹوری کے ٹریٹمنٹ نے نشریاتی معیارات کی خلاف ورزی کی ہے۔حکم میں کہا گیا، ’’محض اس وجہ سے کہ این سی ای آر ٹی کی کتاب کے ایک باب میں یہ دکھایا گیا ہے کہ ایک لڑکی نے ایک لڑکے کو خط لکھا ہے، جو مختلف مذاہب سے تعلق رکھتے تھے،’’لو جہاد‘‘ کا بیانیہ دینے کی کوئی وجہ نہیں تھی۔جبکہ نصاب اور باب کی شمولیت این سی ای آر ٹی کی جانب سے ہے، جو ایک سرکاری ادارہ ہے، اور اس کا مخصوص کام اسکول کے طلباء کے لیے کتابوں کا نصاب اور مواد تیار کرنا ہے۔ ہندوستان ایک سیکولر ملک ہے، جو آئینی حکم بھی ہے۔ لہٰذا، نشریات کرنے والوں کی جانب سے این سی ای آر ٹی کی کتاب کے ایک خاص باب کو فرقہ وارانہ رخ دینا ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کے مترادف ہوگا۔

یہ بھی پڑھئے: ہمایوں کبیر کو ترنمول کانگریس نے معطل کردیا

شکایات کے مطابق،ان چینل نے صرف یہ رپورٹ نہیں کی تھی کہ ایک والدین نے این سی ای آر ٹی کے سبق میں استعمال ہونے والے ناموں پر اعتراض کیا ہے۔اس کے بجائے، پروگراموں میں ہیڈ لائن ٹکرز جیسے ’’لو جہاد کی چٹھی‘‘، ’’پردے سے پردہ اٹھے گا‘‘، ’’ہندو لڑکی نے مسلم نوجوان کو لکھی چٹھی‘‘ شامل تھے۔کئی چینلز نے ایسے افراد کے انٹرویو دکھائے جنہوں نے اس خط کو ہندو لڑکیوں کو متاثر کرنے کی منظم کوشش کا ثبوت قرار دیا۔ تاہم شکایت کنندگان کا کہنا تھا کہ کسی بھی چینل نے تعلیمی ماہرین، بچوں کے نفسیات دانوں، این سی ای آر ٹی کے اہلکاروں یا دیگر والدین کی جانب سے جوابی بیانات شامل نہیں کیے۔این بی ڈی ایس اے کی سماعت میں، چینل  والوں نے اپنے پروگراموں کا دفاع اس بنیاد پر کیا کہ وہ ایک والد، سیاسی شخصیات یا عوامی شخصیات کے بیانات رپورٹ کر رہے تھے۔نیوز۱۸؍ مدھیہ پردیش/چھتیس گڑھ نے کہا کہ اس نے محض دھیرندر کرشنا شاستری (ایک ہندو پنڈت ،باگیشور دھام کے سربراہ) کے بیانات نشر کیے تھے اور ان بیانات کی توثیق یا تصدیق نہیں کی۔ جبکہ انڈیا ٹی وی نے کہا کہ اس نے احتجاج کا احاطہ کیا اور اپنے پروگرام میں این سی ای آر ٹی کے جواب کو پڑھ کر سنایا۔زی اور اے بی پی نیوز نے دلیل دی کہ ’’لو جہاد‘‘ کی اصطلاح والد کی شکایت میں ہی استعمال ہوئی تھی اور چینلز نے اس تنازع کی خبری اہمیت پر توجہ مرکوز کی تھی۔بعد ازاں این بی ڈی ایس اے نے ان دلائل کو مسترد کر دیا۔ اس نے کہا  کہ نشریات کرنے والوں نے حقائق رپورٹ کرنے میںضرورت سے زیادہ فعال کردار اداکیا۔این بی ڈی ایس اے نے اپنے فیصلے میں کہا کہ ’’بظاہر چینل نے ایک شکایت کو خبر کے طور پر دکھایا لیکن   اس شکایت کو ایک مخصوص بیانیے کے ساتھ بحث میں تبدیل کر دیا، جو ان کی جانبداری کو ظاہر کرتا ہے۔‘‘اس کے علاوہ کئی چینل نے این سی ای آر ٹی کے باب کو ایک سازش کا حصہ قرار دیا گیا۔کچھ چینلز نے اسکرین پر ’’رینا‘‘ اور ’’احمد‘‘کے ناموں کو نمایاں کیا، گرافکس جیسے کہ آدھی برقع اور آدھی گھونگھٹ والی عورت استعمال کی، یا ڈرامائی پس منظر کی موسیقی بجائی، ان سب نے مل کر یک طرفہ بیانیہ تشکیل دیا۔ ادارے نے  مزید کہا کہ ان چینلوں نے مخصوص ذہنیت رکھنے والے افراد ہی کی رائے پر انحصار کیا۔

یہ بھی پڑھئے: کرناٹک : نفرت انگیز بیانات کیخلاف قانون بنانے کی تیاری

اپنے حکم میںادارے نے تمام پانچ چینلوں کو ہدایت کی ہے کہ وہ مذکورہ ویڈیوز اپنی ویب سائٹس، یوٹیوب چینلز اور دیگر پلیٹ فارمز سے ہٹائیں اور سات دنوں کے اندر این بی ڈی ایس اے کو اس کی اطلاع دیں۔اور امید ظاہر کی کہ یہ چینل حساس مسائل کی رپورٹنگ کو فرقہ وارانہ رنگ دینے سے گریز کریں گے اور غیر جانبداری کو یقینی بنائیں گے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK