بیلن شاہ اور رابی لامیچھانے کے درمیان نیا سیاسی اتحاد نیپال کی سیاست میں ایک بڑی تبدیلی کی علامت ہے۔ نوجوان ووٹرز کی حمایت اور بدعنوانی کے خلاف واضح مؤقف کے باعث یہ اتحاد روایتی جماعتوں کیلئے سخت امتحان بن سکتا ہے۔
EPAPER
Updated: December 29, 2025, 7:04 PM IST | Kathmandu
بیلن شاہ اور رابی لامیچھانے کے درمیان نیا سیاسی اتحاد نیپال کی سیاست میں ایک بڑی تبدیلی کی علامت ہے۔ نوجوان ووٹرز کی حمایت اور بدعنوانی کے خلاف واضح مؤقف کے باعث یہ اتحاد روایتی جماعتوں کیلئے سخت امتحان بن سکتا ہے۔
نیپال میں مارچ میں ہونے والے پارلیمانی انتخابات سے قبل سیاست میں ایک اہم پیش رفت سامنے آئی ہے۔ پارٹی عہدیداروں اور تجزیہ کاروں کے مطابق، دو مقبول لیڈروں نے ایک ایسا اتحاد قائم کر لیا ہے جو گزشتہ تین دہائیوں سے ملکی سیاست پر حاوی روایتی جماعتوں کیلئے بڑا چیلنج ثابت ہو سکتا ہے۔ کھٹمنڈو کے مقبول میئر اور سابق ریپر بیلن شاہ، جو بیلن کے نام سے جانے جاتے ہیں، نے راشٹریہ سواتنتر پارٹی (آر ایس پی) میں شمولیت اختیار کر لی ہے۔ اس جماعت کی قیادت سابق ٹی وی میزبان سے سیاستدان بننے والے رابی لامیچھانے کر رہے ہیں۔ پارٹی حکام کے مطابق یہ شمولیت اتوار کو عمل میں آئی۔ آر ایس پی کے ساتھ طے پانے والے معاہدے کے تحت، اگر پارٹی ۵؍ مارچ کے انتخابات میں کامیابی حاصل کرتی ہے تو ۳۵؍ سالہ بیلن شاہ وزیرِ اعظم بنیں گے، جبکہ رابی لامیچھانے بدستور پارٹی سربراہ رہیں گے۔
یہ بھی پڑھئے: نیویارک سٹی کا تاریخ ساز لمحہ: یکم جنوری کو ظہران ممدانی عہدہ سنبھالیں گے
دونوں لیڈروں نے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ وہ بدعنوانی کے خلاف نوجوانوں کی قیادت میں ستمبر میں ہونے والے بڑے مظاہروں کے مطالبات کو عملی جامہ پہنائیں گے۔ ان مظاہروں کے دوران ۷۷؍ افراد ہلاک ہوئے تھے، جس کے بعد اس وقت کے وزیرِ اعظم کے پی شرما اولی کو استعفیٰ دینا پڑا تھا۔ سیاسی تجزیہ کار بپن ادھیکاری کے مطابق،’’بیلن اور ان کے نوجوان حامیوں کو اپنے ساتھ شامل کرنا آر ایس پی کی جانب سے ایک نہایت ہوشیار اور اسٹریٹجک قدم ہے۔ روایتی سیاسی جماعتیں اس بات سے پریشان ہیں کہ ان کے نوجوان ووٹرز آر ایس پی کی طرف منتقل ہو رہے ہیں۔‘‘ الیکشن کمیشن کے مطابق، نیپال کی تقریباً ۳۰؍ ملین آبادی میں سے ۱۹؍ ملین افراد ووٹ ڈالنے کے اہل ہیں۔ حالیہ مظاہروں کے بعد تقریباً ۱۰؍ لاکھ نئے ووٹرز فہرست میں شامل کئےگئے، جن میں اکثریت نوجوانوں کی ہے۔
یہ بھی پڑھئے: خود کے بارے میں کیا خیال ہے؟: اقلیتوں کے تحفظ پر ہندوستانی بیان پر بنگلہ دیش
بیلن شاہ مظاہروں کے بعد قومی سطح پر نمایاں ہوئے اور ستمبر کے احتجاج کی قیادت کرنے والے نوجوانوں کے ایک غیر اعلانیہ لیڈر سمجھے جاتے ہیں۔ انہوں نے ووٹنگ کے شفاف انعقاد کیلئے سابق چیف جسٹس سشیلا کارکی کی سربراہی میں عبوری حکومت کی تشکیل میں بھی کردار ادا کیا تھا۔ گزشتہ تین دہائیوں سے اقتدار کمیونسٹ پارٹی آف نیپال (یو ایم ایل) اور نیپالی کانگریس کے درمیان گردش کرتا رہا ہے۔ ماہرین کے مطابق، آئندہ انتخابات میں یہی جماعتیں بیلن شاہ اور آر ایس پی کے اتحاد کو سب سے بڑا چیلنج دیں گی۔