نیتن یاہو نے عالمی سطح پر اسرائیل کو تنہا کرنے کا الزام ”ایک انتہائی اسلامی ایجنڈے“ پر عائد کیا جو یورپی ممالک کی پالیسیوں کو تشکیل دے رہا ہے۔
EPAPER
Updated: September 16, 2025, 10:10 PM IST | Jerusalem
نیتن یاہو نے عالمی سطح پر اسرائیل کو تنہا کرنے کا الزام ”ایک انتہائی اسلامی ایجنڈے“ پر عائد کیا جو یورپی ممالک کی پالیسیوں کو تشکیل دے رہا ہے۔
اسرائیل کے دورے پر آئے امریکی وفد سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم بنجامن نیتن یاہو نے کہا کہ امریکیوں کو اپنی روزمرہ کی زندگی میں اسرائیل کے کردار کو تسلیم کرنا چاہئے، جس کیلئے انہوں نے ٹیکنالوجی، ادویات اور اشیائے خوردونوش کی مثالیں دیں۔ انہوں نے ان دعوؤں کو مسترد کر دیا کہ غزہ میں جنگ جاری رکھنے کی وجہ سے بین الاقوامی تنقید اور ہتھیاروں کی ترسیل پر پابندیوں کی وجہ سے اسرائیل عالمی سطح پر الگ تھلگ ہو رہا ہے۔
مغربی یروشلم میں ہوئی ملاقات میں نیتن یاہو نے کہا کہ ”ان میں سے کچھ (ممالک) نے ہتھیاروں کے پرزوں کی ترسیل روک دی ہے۔ کیا ہم اس سے باہر نکل سکتے ہیں؟ ہاں، ہم نکل سکتے ہیں۔ ہم ہتھیار بنانے میں کافی اچھے ہیں۔“ انہوں نے مزید کہا کہ ”انٹیلی جنس کی طرح، ہم امریکہ کے ساتھ دونوں چیزیں شیئر کرتے ہیں۔ آپ کی انٹیلی جنس کا ایک بڑا حصہ۔ اور ہمارے ہتھیاروں کے نظام، ہم امریکہ کے ساتھ شیئر کرتے ہیں۔
یہ بھی پڑھئے: ایمی ایوارڈزمیں ’’آزاد فلسطین‘‘ کا نعرہ بلند، جنگ بندی کا پُرزور مطالبہ
نیتن یاہو نے، جسے وہ ”امریکی حمایت کی مستقل مزاجی“ کہتے ہیں، کی تعریف کی اور پھر امریکہ بھیجی جانے والی اسرائیلی برآمدات کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ”کیا آپ کے پاس سیل فون ہیں؟ کیا آپ کے پاس یہاں سیل فون ہیں؟ (اگر ہاں تو) آپ بالکل وہی اسرائیل کی بنائی چیز پکڑے ہوئے ہیں۔ سیل فون کے علاوہ بہت سی چیزیں جیسے ادویات، خوراک اسرائیل میں تیار کی جاتی ہیں۔ کیا آپ چیری ٹومیٹو کھاتے ہیں؟ کیا آپ جانتے ہیں کہ ان کی پیداوار کہاں ہوئی تھی؟ مجھے چیری ٹومیٹو پسند نہیں، لیکن یہ ایک اسرائیلی مصنوعات ہے، جیسا کہ بہت سی دوسری چیزیں ہیں۔“
نیتن یاہو نے ان کو ”تمام انسانوں کی بہتری کیلئے“ اسرائیل کی شراکت کی مثالوں کے طور پر پیش کیا اور غیر ملکی سپلائرز سے آزادی کو مضبوط بنانے کا عہد کیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ ”اسی طرح، ہم بالآخر وہ آزادی پیدا کریں گے جس کی ہمیں ضرورت ہے تاکہ مغربی یورپ میں وہ لوگ جو سمجھتے ہیں کہ وہ ہمیں چیزوں سے محروم کر سکتے ہیں، وہ کامیاب نہیں ہوں گے۔ ہم اس محاصرے کو توڑ سکتے ہیں اور ہم توڑیں گے۔“
یہ بھی پڑھئے: پولینڈ کا گوگل کو غزہ میں قحط کا انکار کرنے والے اسرائیلی اشتہار ہٹانے کا حکم
غزہ میں جاری جنگ پر بڑھتے ہوئے عالمی غم و غصے کے درمیان، نیتن یاہو نے تسلیم کیا کہ اسرائیل کو ”ایک قسم کی تنہائی“ کا سامنا ہے جو برسوں تک قائم رہ سکتی ہے۔ انہوں نے خبردار کیا کہ معیشت کو ”آٹارکک خصوصیات“ (زیادہ خود انحصاری) کی ضرورت ہوگی۔ انہوں نے ہتھیاروں کی صنعت کو وسعت دینے پر زور دیا۔ انہوں نے کہا کہ ”ہمیں اپنی ہتھیاروں کی صنعت کو ترقی دینے کی ضرورت ہوگی۔۔۔ ہم ایتھنز اور سپر اسپارٹا دونوں بنیں گے۔ ہمارے پاس اور کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے، کم از کم آنے والے برسوں کیلئے ہمیں ایسا کرنا ہوگا جب ہمیں اسرائیل کو تنہا کرنے کی کوششوں سے نمٹنے کی ضرورت ہوگی۔“
واضح رہے کہ اس وقت کئی یورپی طاقتوں فرانس، برطانیہ، اسپین، اٹلی سمیت دیگر ممالک نے اسرائیل کو ہتھیاروں کی فراہمی پر جزوی یا مکمل پابندیاں عائد کردی ہیں۔ اگرچہ امریکہ فوجی امداد فراہم کر رہا ہے لیکن واشنگٹن نے اتحادیوں کو فوجی فروخت میں کمی کرنے کے خلاف خبردار کیا ہے۔ نیتن یاہو نے اس تنہائی کا کچھ الزام ”ایک انتہائی اسلامی ایجنڈے“ پر عائد کیا جو یورپی ممالک کی پالیسیوں کو تشکیل دے رہا ہے۔ انہوں نے قطر سمیت دیگر حریف ریاستوں پر آن لائن ذرائع سے عالمی سطح پر گفتگو کو متاثر کرنے کا الزام لگایا۔
نیتن یاہو کے بیان کو اپنے ہی ملک میں مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ اسرائیل کے اپوزیشن لیڈران نے وزیراعظم کے بیان کو ’خطرناک‘ قرار دے کر مسترد کر دیا۔ یائر لاپید نے انہیں ”پاگل“ قرار دیا جبکہ سابق فوجی سربراہ گادی آئزن کوٹ نے نیتن یاہو پر اسرائیل کو عالمی سطح پر الگ تھلگ کرنے کا الزام لگایا۔