Updated: December 13, 2025, 9:03 PM IST
| Islamabad
پاکستان کے تعلیمی اداروں میں بھگوت گیتا، مہا بھارت اور سنسکرت پڑھائی جائےگی، یہ اقدام گرمانی سینٹر کے ڈائریکٹر ڈاکٹر علی عثمان قاسمی کی کوششوں کا نتیجہ ہے، جنہوں نے ٹریبون کو بتایا کہ پاکستان کے پاس پنجاب یونیورسٹی لائبریری میں سنسکرت کا انتہائی مالا مال مگر سب سے زیادہ نظرانداز شدہ ذخیرہ موجود ہے۔
پاکستان کے تعلیمی اداروں میں بھگوت گیتا، مہا بھارت اور سنسکرت پڑھائی جائےگی، یہ اقدام گرمانی سینٹر کے ڈائریکٹر ڈاکٹر علی عثمان قاسمی کی کوششوں کا نتیجہ ہے، جنہوں نے ٹریبون کو بتایا کہ پاکستان کے پاس پنجاب یونیورسٹی لائبریری میں سنسکرت کا انتہائی مالا مال مگر سب سے زیادہ نظرانداز شدہ ذخیرہ موجود ہے۔ ایک پاکستانی جامعہ نے طلباء کو سنسکرت سکھانے کا کورس شروع کیا ہے اور اس کے بعد بھگود گیتا اور مہابھارت متعارف کرانے کا منصوبہ بنا رہی ہے۔ یہ۱۹۴۷؍ کی تقسیم کے بعد پہلا موقع ہے۔ لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز (LUMS) نے اس زبان میں چار کریڈٹ کا کورس شروع کیا ہے۔ کورس کے حصے کے طور پر، طلباء کو مہابھارت ٹیلی ویژن سیریز کے مشہور تھیم ’’ہے کتھا سنگرام کی‘‘کے اردو ورژن سے بھی روشناس کرایا جا رہا ہے۔
یہ بھی پڑھئے: بنگلہ دیش: عوامی لیگ نے عبوری حکومت کا اعلان کردہ انتخابی شیڈول مسترد کر دیا
ڈاکٹر قاسمی نے بتایا، ’’ پتّوں پر لکھے گئے سنکرت کے مخطوطات کا ایک بڑا ذخیرہ۱۹۳۰ء کی دہائی میں محقق سی آر جے وولمرنے مرتب کیا تھا، لیکن۱۹۴۷ء کے بعد سے کسی بھی پاکستانی ماہر تعلیم نے اس پر کام نہیں کیا۔ صرف غیر ملکی محققین اسے استعمال کرتے ہیں۔ مقامی سطح پرا سکالرز کی تربیت سے یہ صورت حال بدل جائے گی۔‘‘انہوں نے کہا،’’۱۰؍ سے۱۵؍ سال میں، ہم پاکستان میں مقیم بھگود گیتا اور مہابھارت کے اسکالرز دیکھ سکتے ہیں۔‘‘
یہ بھی پڑھئے: ’’اساتذہ کی خالی اسامیوں کو فوری طور پر پُر کیا جائے‘‘
تاہم یہ اقدام فارمین کرسچین کالج میں سماجیات کے ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر شاہد رشید کی کوششوں کا بھی نتیجہ ہے۔ڈاکٹر رشید نے کہا، ’’کلاسیکی زبانوں میں بنی نوع انسان کے لیے بڑی حکمت پنہاں ہے۔ میں نے عربی اور فارسی سیکھنے سے آغاز کیا، پھر سنسکرت کا مطالعہ کیا۔ کلاسیکی سنسکرت گرامر سیکھنے میں مجھے تقریباً ایک سال لگا، اور میں اب بھی اس کا مطالعہ جاری رکھے ہوئے ہوں۔‘‘انہوں نے مزید کہا، "میں لوگوں سے کہتا ہوں کہ ہمیں یہ زبان کیوں نہیں سیکھنی چاہیے؟ یہ پورے خطے کی رابطے کی زبان ہے۔ سنسکرت کے گرامر دان پانینی کا گاؤں اسی خطے میں تھا۔ وادیٔ سندھ کی تہذیب کے دوران یہاں بہت کچھ لکھا گیا۔ سنسکرت ایک پہاڑ کی مانند ہےایک ثقافتی یادگار۔ ہمیں اسے اپنانا چاہیے۔ یہ ہماری بھی زبان ہے؛ یہ کسی ایک مخصوص مذہب سے منسوب نہیں۔‘‘