• Mon, 17 November, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

فلسطینی مزاحمتی گروپس کا امریکی قرارداد کے مسودے پر سخت ردِعمل

Updated: November 17, 2025, 4:59 PM IST | Gaza

فلسطینی مزاحمتی دھڑوں نے غزہ میں بین الاقوامی فوج تعینات کرنے کیلئے امریکی قرارداد کے مسودے کو فلسطینی خودمختاری میں براہِ راست مداخلت قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا ہے۔ مشترکہ بیان میں کہا گیا کہ یہ اقدام غزہ کی مقامی فیصلہ سازی کو حاشئے پر لگانے، فلسطینی اداروں کو کمزور کرنے اور امداد کو ایک سیاسی اور سیکوریٹی دباؤ کے آلے میں بدلنے کی کوشش ہے۔ دھڑوں نے زور دیا کہ انسانی امداد کا نظام اقوام متحدہ کی نگرانی میں قائم مجاز فلسطینی اداروں کے ذریعے چلایا جائے اور کسی بھی غیر ملکی فوجی موجودگی کو فلسطینی حقوق کے خلاف سازش قرار دیا۔

Photo: X
تصویر: ایکس

فلسطینی مزاحمتی گروہوں نے اتوار کو متنبہ کیا کہ غزہ میں بین الاقوامی فوج کی تعیناتی سے متعلق امریکی قرارداد کا مسودہ دراصل اس علاقے پر بیرونی سرپرستی مسلط کرنے اور فلسطینی فیصلہ سازی کو نظرانداز کرنے کے مترادف ہے۔ ایک مشترکہ بیان میں دھڑوں نے کہا کہ مجوزہ مینڈیٹ ’’فلسطینی قومی فیصلوں پر بیرونی تسلط‘‘ کی مضبوطی کا سبب بنے گا۔ اس کے نتیجے میں غزہ کی انتظامیہ اور تعمیرِنو کی ذمہ داریاں وسیع اختیارات رکھنے والے ایک اعلیٰ قومی ادارے کو منتقل ہو جائیں گی، جو فلسطینیوں کے اپنے معاملات چلانے کے حق کی نفی کرے گا۔ مزاحمتی گروہوں نے اس بات پر زور دیا کہ تمام انسانی امدادی سرگرمیاں اقوام متحدہ کی نگرانی میں موجود ’’مجاز فلسطینی اداروں‘‘ کے ذریعے چلائی جائیں، جن کی بنیاد فلسطینی خودمختاری اور مقامی آبادی کی ضروریات کے احترام پر ہو۔ انہوں نے خبردار کیا کہ اگر امداد کو غیر ملکی میکانزم کے ذریعے منتقل کیا گیا تو یہ امدادی عمل سیاسی دباؤ کا ذریعہ بن جائے گا، فلسطینی ادارے کمزور ہوں گے اور اقوام متحدہ کی فلسطینی پناہ گزینوں کی ایجنسی (اونروا) کا کردار متاثر ہوگا۔ بیان میں اونروا کو فلسطینی مہاجرین کے ناقابلِ تنسیخ حقوق کا بین الاقوامی گواہ قرار دیتے ہوئے اس کے تحفظ پر زور دیا گیا۔

یہ بھی پڑھئے: بنگلہ دیش: معزول وزیراعظم شیخ حسینہ ’انسانیت کے خلاف جرائم‘ کی مرتکب، سزائے موت

دھڑوں نے غزہ میں اسلحے میں کمی یا اسرائیلی قبضے کے خلاف فلسطینیوں کے بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ حقِ مزاحمت سے متعلق کسی بھی شق کو مسترد کر دیا۔ بیان کے مطابق اسلحے کے موضوع پر کوئی بھی گفتگو ’’خالص قومی معاملہ‘‘ ہے، جسے ایسے سیاسی عمل سے منسلک ہونا چاہئے جو اسرائیلی قبضے کے خاتمے اور آزاد فلسطینی ریاست کے قیام تک پہنچائے۔ بیان میں ایک مجوزہ کثیرالقومی فورس کے کردار پر بھی سخت تنقید کی گئی، یہ کہتے ہوئے کہ ایسی فورس تل ابیب کے ساتھ براہ راست رابطے کے ذریعے ’’عملاً اسرائیلی قبضے کی خدمت‘‘ کرے گی۔ گروہوں نے کہا کہ اگر کوئی بین الاقوامی مشن قائم بھی کیا جائے، تو وہ مکمل طور پر اقوام متحدہ کی اتھاریٹی کے تحت ہو، صرف فلسطینی سرکاری اداروں سے ہم آہنگ ہو اور اس کا کردار شہریوں کے تحفظ، امداد کی فراہمی اور افواج کو الگ رکھنے تک محدود رہے،بغیر کسی سیکوریٹی اتھاریٹی یا اعلیٰ انتظامی اختیار کے۔

یہ بھی پڑھئے: فلسطینی فٹبال ٹیم کا اسپین میں آزادی اور امن کا پیغام

انہوں نے غزہ میں کسی بھی قسم کی غیر ملکی فوجی موجودگی، ٹرسٹی شپ یا بین الاقوامی اڈوں کو مکمل طور پر مسترد کرتے ہوئے انہیں فلسطینی خودمختاری پر براہِ راست حملہ قرار دیا۔ مزاحمتی دھڑوں نے بین الاقوامی کمیونٹی سے مطالبہ کیا کہ وہ اسرائیل کو اس کی جاری خلاف ورزیوں پر جوابدہ ٹھہرائے، جن میں شہریوں کے تحفظ کی ذمہ داری اور غزہ کی کراسنگز پر اسرائیلی کنٹرول کے باعث پیدا ہونے والا شدید انسانی بحران شامل ہے۔ بیان کے اختتام میں کہا گیا کہ غزہ کے نظم و نسق کیلئے عرب اسلامی فریم ورک ہی سب سے قابلِ قبول ماڈل ہے۔ اس تصور کے مطابق حماس غزہ کا انتظام آزاد ٹیکنوکریٹس پر مشتمل ایک عبوری فلسطینی انتظامی کمیٹی کے سپرد کرے گی۔ 

یہ بھی پڑھئے: اسرائیل کا ’’یلو لائن منصوبہ‘‘غزہ کو تقسیم کرنے کی سازش، مصر میں تشویش

واضح ر ہے کہ یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل پیر کو امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے غزہ منصوبے کے دوسرے مرحلے پر ووٹنگ کرنے والی ہے، جس میں غزہ میں بین الاقوامی فوج کی تعیناتی اور فلسطینی ریاست کے قیام کے خاکے شامل ہیں۔ غزہ جنگ بندی کا معاہدہ ۱۰؍ اکتوبر کو مصر، قطر، امریکہ اور ترکی کی ثالثی میں طے پایا تھا، تاہم اسرائیل کی مسلسل خلاف ورزیوں نے اس معاہدے کے دوسرے مرحلے، یعنی سکیوریٹی اور انتظامی انتظامات اور اسرائیلی انخلا، پر پیش رفت کو روک رکھا ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK