Updated: December 18, 2025, 8:00 PM IST
| New Delhi
سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران چیف جسٹس آف انڈیا سوریہ کانت نے ریٹائرمنٹ سے قبل ججوں کی جانب سے غیر معمولی عدالتی احکامات جاری کرنے کے بڑھتے رجحان پر تشویش ظاہر کی۔ عدالت نے ایک معطل ڈسٹرکٹ جج کی درخواست مسترد کرتے ہوئے انہیں ہائی کورٹ سے رجوع کرنے کی ہدایت دی۔
چیف جسٹس آف انڈیا سوریہ کانت۔ تصویر: ایکس
عدالتی نظم و ضبط اور شفافیت سے متعلق ایک اہم سماعت کے دوران چیف جسٹس آف انڈیا (سی جے آئی) جسٹس سوریہ کانت نے بدھ کو اس رجحان پر تشویش ظاہر کی کہ بعض جج اپنی ریٹائرمنٹ سے عین قبل غیر معمولی تعداد میں عدالتی احکامات جاری کرتے ہیں۔ انہوں نے اس رویے کو ایک ’’بدقسمتی کا رجحان‘‘ قرار دیا۔ یہ تبصرے اس وقت کئے گئے جب سپریم کورٹ مدھیہ پردیش کے ایک پرنسپل ڈسٹرکٹ جج کی درخواست پر سماعت کر رہی تھی، جنہوں نے اپنی ریٹائرمنٹ سے صرف ۱۰؍ دن قبل ہونے والی معطلی کو چیلنج کیا تھا۔ جج کو مبینہ طور پر دو عدالتی احکامات جاری کرنے پر ۱۹؍ نومبر کو معطل کیا گیا تھا جبکہ ان کی ریٹائرمنٹ کی تاریخ ۳۰؍ نومبر مقرر تھی۔
یہ بھی پڑھئے: ہندوستانی کرنسی امسال ایشیا میں سب سے خراب کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والی کرنسی ہے
چیف جسٹس سوریہ کانت کی سربراہی میں قائم بنچ، جس میں جسٹس جویمالیا باغچی بھی شامل تھے، نے تبصرے کئے کہ بعض جج ریٹائرمنٹ سے پہلے ’’چھکے مارنے‘‘ کی کوشش کرتے ہیں۔ بنچ نے کہا کہ ’’درخواست گزار نے ریٹائرمنٹ سے ٹھیک پہلے چھکے مارنا شروع کر دیے۔ یہ ایک بدقسمتی کا رجحان ہے۔ میں اس کی تفصیل میں نہیں جانا چاہتا، حالانکہ جاننے میں دلچسپی ضرور ہے۔‘‘ بعد ازاں، ۲۰؍ نومبر کو سپریم کورٹ نے مدھیہ پردیش حکومت کو ہدایت دی کہ ریاست کی جانب سے سرکاری ملازمین کی ریٹائرمنٹ کی عمر ۶۲؍ سال کئے جانے کے فیصلے کے تحت، متعلقہ جج کی ریٹائرمنٹ کو ایک سال کیلئے مؤخر کیا جائے۔ چیف جسٹس نے واضح کیا کہ جب جج نے متنازع احکامات جاری کئے تھے، اس وقت انہیں اپنی ریٹائرمنٹ کی مدت میں توسیع کے حکومتی فیصلے کا علم نہیں تھا۔
یہ بھی پڑھئے: کشمیر: سیاحت کیلئے وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے مصنوعی برف کی تجویز پیش کی
انہوں نے کہا کہ ’’عدالتی افسر کو یہ معلوم نہیں تھا کہ ان کی ریٹائرمنٹ کی عمر میں ایک سال کا اضافہ ہو چکا ہے۔ تاہم ریٹائرمنٹ سے قبل بڑی تعداد میں احکامات جاری کرنے کا رجحان تشویشناک ہے۔‘‘ بنچ نے یہ سوال بھی اٹھایا کہ ڈسٹرکٹ جج نے اپنی معطلی کے خلاف براہِ راست سپریم کورٹ سے رجوع کیوں کیا، جبکہ پہلے ہائی کورٹ سے رجوع کیا جانا چاہئے تھا۔اس پر جج کے وکیل نے موقف اختیار کیا کہ چونکہ معطلی فل کورٹ کے فیصلے کے تحت ہوئی تھی، اس لئے عدالتی افسر نے منصفانہ سماعت کیلئے براہِ راست سپریم کورٹ سے رجوع کرنا مناسب سمجھا۔
یہ بھی پڑھئے: نوی ممبئی میں فضائی آلودگی روکنے کے لئے عوام سےتعاون کی اپیل
سینئر وکیل وپن سنگھی نے عدالت کو بتایا کہ متعلقہ جج کا کیریئر متاثر کن رہا ہے اور ان کی سالانہ خفیہ رپورٹس میں انہیں بہترین درجہ بندی ملتی رہی ہے۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ’’کیا کسی جج کو محض عدالتی احکامات جاری کرنے پر معطل کیا جا سکتا ہے، جبکہ ان احکامات کے خلاف اپیل اور اصلاح کا قانونی راستہ موجود ہوتا ہے؟‘‘ اس پر بنچ نے جواب دیا کہ محض غلط عدالتی احکامات پر تادیبی کارروائی نہیں کی جا سکتی، تاہم اگر احکامات واضح طور پر بدنیتی پر مبنی ہوں تو معاملہ مختلف ہو سکتا ہے۔ بالآخر سپریم کورٹ نے درخواست پر غور کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ متعدد مثالیں موجود ہیں جہاں ہائی کورٹس نے فل کورٹ کے فیصلوں کا جائزہ لیا ہے، لہٰذا درخواست گزار کو ہائی کورٹ سے رجوع کرنا چاہئے۔
یہ بھی پڑھئے: ’’انسانی اسمگلنگ کے تدارک کیلئے ایجنسیوں میں بہترتال میل کی اشد ضرورت‘‘
عدالت نے اس بات پر بھی ناپسندیدگی کا اظہار کیا کہ عدالتی افسر نے اپنی معطلی کی بنیاد جاننے کے لیے آر ٹی آئی درخواستوں کا سہارا لیا۔بنچ نے کہا کہ ’’کسی سینئر عدالتی افسر سے یہ توقع نہیں کی جاتی کہ وہ معلومات حاصل کرنے کے لیے آر ٹی آئی کا راستہ اختیار کرے۔ انہیں باقاعدہ نمائندگی دائر کرنی چاہئے تھی۔‘‘