• Tue, 02 December, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

کیا غیر قانونی روہنگیا کا سرخ قالین بچھا کر استقبال کریں: سپریم کورٹ

Updated: December 02, 2025, 10:25 PM IST | New Delhi

سپریم کورٹ کے چیف جسٹس سوریہ کانت نے روہنگیا پناہ گزینوں کے جبری ملک بدری کے ایک معاملے کی سماعت کے دوران کہا کہ کیا غیر قانونی روہنگیا کا سرخ قالین بچھا کر استقبال کریں، ساتھ ہی غیر قانونی ملک بدری کی درخواست پر سوال اٹھائے۔

Rohingya, refugees. Photo: INN
روہنگیا، پناہ گزین۔ تصویر: آئی این این

سپریم کورٹ نے منگل کو سوال اٹھایا کہ وہ افراد جو غیرقانونی طور پر ہندوستان میں داخل ہوتے ہیں، اپنی ملک بدری  کے لیے قانونی عمل کے اطلاق پر اصرار کیسے کر سکتے ہیں۔دراصل عدالت ایک عوامی مفاد کی درخواست (PIL) پر سنوائی کر رہی تھی جس میں الزام تھا کہ کئی روہنگیا افراد کو مقررہ طریقہ کار کی پیروئی کے بغیر ملک بدر کیا گیا ہے۔ہندوستان کے چیف جسٹس سوریہ کانت اور جسٹس باغچی کی بینچ اس درخواست پر سنوائی کر رہی تھی جس میں روہنگیا افراد کی ’’حراستی گمشدگی‘‘ کا الزام لگایا گیا تھا۔ یہ افراد مبینہ طور پر دہلی پولیس کی تحویل میں تھے اور جن کی موجودہ صورتحال نامعلوم ہیں۔ درخواست میں مطالبہ کیا گیا تھا کہ کسی بھی ملک بدری کو قانون کے مطابق عمل میں لایا جائے۔چیف جسٹس سوریہ کانت نے درخواست گزار کے وکیل سے پوچھا کہ جو غیر قانونی طور پر باڑ لگائی ہوئی سرحد پار کرتے ہیں، سرنگ کھودتے ہیں اور غیرقانونی طور پر ہندوستان میں داخل ہوتے ہیںایسی صورتحال میں خوراک، رہائش اور دیگر تحفظات کا حق کیسے مانگ سکتے ہیں۔ انہوں نے پوچھا، ’’کیا ہم قانون کو اس طرح نافذ کرناچاہتے ہیں؟ ‘‘

یہ بھی پڑھئے: کیا پرالی جلانا فضائی آلودگی کی واحد وجہ ہے : سپریم کورٹ کا حکومت سے سوال

واضح رہے کہ یہ سوال انہوں نے وکیل کے اس الزام کے جواب میں کیا کہ پانچ روہنگیا افراد کو قانونی عمل کے بغیر ملک بدر کر دیا گیا تھا۔بینچ نے یہ بھی سوال کیا کہ کیا مرکز نے کبھی ان افراد کو پناہ گزین کا درجہ دیا ہے۔ پناہ گزین ایک واضح قانونی اصطلاح ہے، اور اسے قرار دینے کے لیے ایک مقررہ انتظامیہ ہے۔وکیل نے وضاحت کی کہ وہ ان کے لیے پناہ گزین کا درجہ نہیں مانگ رہی ہیں بلکہ حراست سے گمشدگی کا معاملہ اٹھا رہی ہیں۔ سوریہ کانت نے کہا کہ اس معاملے کو ہندوستان میں موجود روہنگیا افراد سے متعلق دیگر زیر التوا درخواستوں کے ساتھ منسلک کر دیا جائے گا۔جب عدالت نے پوچھا کہ کیا ان کا مقصد غیرقانونی طور پر ہندوستان داخل ہونے والے افراد کے لیے قانونی حیثیت حاصل کرنا ہے، تو وکیل نے جواب دیا کہ قانون ملک بدری کے طریقہ کار کے بارے میں ایک واضح یادداشت مقرر کرتا ہے، اور لوگوں کو اسمگل کر کے ملک سے باہر لے جانا زیادہ سیکیورٹی کا خطرہ پیدا کرے گا۔تاہم، بینچ نے جواب دیا، ’’اگر آپ کے پاس ہندوستان میں پناہ گزین کے طور پر رہنے کی قانونی حیثیت نہیں ہے، اور آپ درانداز ہیں، تو کیا ہم ان کا سرخ قالین بچھا کر استقبال کریں اور تمام سہولیات فراہم کریں؟اس پر وکیل نے جواب دیا، ’’ہرگز نہیں،‘‘ لیکن اس بات پر اصرار کیا کہ ملک بدری قانونی عملکے ذریعے ہو۔غیرقانونی طور پر ہندوستان میں داخل ہونے والوں کے لیے مکمل قانونی تحفظ کی مانگ پر حیرت کا اظہار کرتے ہوئے سوریہ کانت نے کہا، ہمارے ملک میں بھی غریب لوگ ہیں۔ وہ شہری ہیں۔ کیا وہ کچھ مراعات اور سہولیات کے حقدار نہیں ہیں؟ پہلے ان پر توجہ کیوں نہ دی جائے؟ یہاں تک کہ اگر کوئی غیرقانونی طور پر داخل ہوا ہے، ہم تیسرے درجے کا سلوک نہیں کر سکتے جب تک کہ وہ کسی جرم میں ملوث نہ ہوں۔

یہ بھی پڑھئے: مرکزی حکومت کا حکم: اب ہر موبائل میں ’سنچار ساتھی‘ ایپ لازمی طور پر پہلے سے انسٹال کی جائے گی

انہوں نے یہ بھی خبردار کیا کہ ایسی رعایت دینے سے لاجسٹک چیلنجز پیدا ہو سکتے ہیں اور ایک مثال قائم ہو سکتی ہے، انہوں نے کہا، ’’اگر یہ ایک ملک کے ایک گروہ کے لیے کیا جاتا ہے، تو دوسرے ملک کا دوسرا گروہ بھی یہی مطالبہ کرے گا۔‘‘سولیسٹر جنرل تشار مہتہ نے دلیل دی کہ یہ درخواست ایک  مفاد عامہ کے حوالے سے دائر کی گئی ہے ، نہ کہ متاثرین خود نے۔‘‘تاہم صحافی ابوذ چودھری نے ایکس پرچیف جسٹس کے تبصرے پر تنقید کرتے ہوئے لکھا، ’’عدلیہ کاسربراہ اتنا غیر حساس اور غیر اخلاقی کیسے ہو سکتا ہے؟ درخواست میں صرف یہ مطالبہ کیاگیا تھا کہ کوئی بھی ملک بدری مناسب عمل کے ذریعے کی جائے تاکہ بنیادی انسانی حقوق کا تحفظ ہو سکے۔‘‘
بعد ازاں بہت سے مبصرین کا کہنا ہے کہ اگرچہ ہندوستان۱۹۵۱ء کے پناہ گزین کنونشن کا فریق نہیں ہے، پھر بھی یہ غیر ریفولمینٹ کے روایتی بین الاقوامی قانونی اصول کاپابند ہے، جس کی ہندوستان نے توثیق کی ہے۔ دونوں کسی بھی شخص کو، چاہے ان کی امیگریشن کی حیثیت کچھ بھی ہو، ایسی جگہ واپس بھیجنے سے روکتے ہیں جہاں انہیں ظلم و ستم، تشدد یا موت کا حقیقی خطرہ ہو۔واضح رہے کہ روہنگیا، میانمار کے رخائن صوبے کے ایک مسلم اقلیتی گروہ ہیں،جنہیں دہائیوں سے منظم امتیاز، شہریت سے انکار، فوجی تشدد، بڑے پیمانے پر بے گھرہونے کا سامنا ہے، اور جسے اقوام متحدہ کے محققین نے نسل کشی سے تعبیر کیا ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK