Inquilab Logo Happiest Places to Work

برطانیہ: پلاسٹک سرجن وکٹوریہ روز غزہ دوبارہ جانے کی خواہشمند

Updated: June 20, 2025, 2:13 PM IST | London

برطانوی پلاسٹک سرجن وکٹوریہ روز، جنہوں نے دو سال غزہ کے اسپتالوں میں خدمات انجام دی ہیں، نے کہا کہ وہ دوبارہ غزہ جانے کی خواہشمند ہیں۔ انہوں نے غزہ کے حالات بیان کرتے ہوئے کہا کہ ’’غزہ کی صورتحال کو بیان کرنے کیلئے لفظ ’’سنگین‘‘ ناکافی ہے۔

British plastic surgeon Victoria Rose. Photo: X
برطانیہ کی پلاسٹک سرجن وکٹوریہ روز۔ تصویر: ایکس

برطانیہ کی پلاسٹک سرجن وکٹوریہ روز، جنہوں نے گزشتہ دو برسوں میں غزہ کے اسپتالوں میں کام کیا ہے،ایک مرتبہ پھرغزہ جانے کی خواہشمند ہیں۔ انہوں نے غزہ میں جنگی حالات کا سامنا کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’غزہ کے حالات کیلئے لفظ ’’سنگین‘‘ استعمال کرنا ناکافی ہے۔ میں روزمرہ کی بنیاد پر وہاں کام کرتی تھی، میں پاس تقریباً ۱۰؍ مریضوں کی فہرست تھی جن میں سے ۶۰؍ فیصد کی عمر ۱۵؍ سال سے کم ہے۔ یہ چھوٹے بچے ہیں جو زندگی کو خطرہ میں ڈالنے والے زخموں کا سامنا کر رہے ہیں جبکہ ان کے اعضاء ٹوٹ گئے ہیں۔ یہ وہ بچے ہیں جنہوں نے حملوں میں اپنے خاندان کے لوگوں کو کھو دیا ہے اور زندگی کو تبدیل کر دینے والے زخموں کو نہیں جھیل پارہے۔ ۲۰۱۹ء میں، میں نے چیریٹی آئیڈیلس جوائن کیا تھا، جو غزہ میں طبی بحران کے درمیان ڈاکٹروں کی مدد کرتا ہے۔ میں گزشتہ سال لوٹی ہوں۔ میں دوبارہ غزہ جانے کی خواہشمند ہوں کیونکہ غزہ سے تعلق رکھنے والے میرے ساتھی پلاسٹک سرجن، جنہوں نے لندن میں میرے ساتھ تربیت حاصل کی تھی، اکتوبر ۲۰۲۳ء میں جنگ کی شروعات سے لے کر اب تک صدمے کے پیچیدہ معاملات کا سامنا کر رہے ہیں۔ ہمارا مقصد غزہ میں آپریشن کیلئے اہم آلات فراہم کرنا اور اپنے ساتھ کام کرنے والے افراد کا ساتھ دینا ہے جو زیادہ کام کی وجہ سے صدمے کا سامنا کر رہے ہیں۔ چونکہ جنگ جاری ہے، اسی لئے ہمارا تیسرا مقصد بھی ہے، گواہ بننا۔ میں نے غزہ کے یورپین غزہ اسپتال میں کام کیا تھا اور اگست میں ایک ماہ کیلئے واپس آگئی تھی اور پھر ناصر اسپتال میں کام کیا تھا۔ اس درمیان میں نے جو دیکھا وہ ناقابل قبول ہے۔ غزہ کی سڑکیں ناقابل شناخت تھیں، ہر جگہ مٹی اور دھول کے ڈھیر تھے۔ اس درجے کی تباہی کو صرف اسی صورت میں جائز قرار دیا جا سکتا ہے اگر غزہ کی ہر ایک عمارت کو حماس کے ڈھانچے کا حصہ سمجھا جائے۔"

یہ بھی پڑھئے: برطانیہ: غزہ جنگ بند کرنے کیلئے مزید ۱۰۰؍ مشہور شخصیات کا حکومت سے مطالبہ

انہوں نے مزید کہا کہ ’’فروری ۲۰۲۴ء میں سی او جی اے ٹی نے ہماری رسائی پر پابندی عائد کر دی تھی جو اسرائیل کی ڈیفنس فورس (آئی ڈی ایف) کا حصہ ہے اور مقبوضہ علاقوں میں اسرائیلی سرگرمیوں کو کنٹرول کرتا ہے۔ تاہم، مئی میں ہم رسائی حاصل کرنے میں کامیاب رہے۔ ہمارے مشن میں غزہ کے یورپین اسپتال میں آخری چار ہفتے گزارنا تھا۔ تاہم، جس دن ہم پہنچے اس دن بمباری ہورہی تھی۔ آئی ڈی ایف کی طرف سے بہت سی پابندیاں عائد کی جارہی تھیں اور ہمیں ساڑھے تین ہفتوں کیلئے ناصر اسپتال بھیج دیا گیا۔ غزہ کی آبادی کو مسلسل بے گھر کیا جارہا تھا، ان کے خیموں پر بمباری کی جارہی تھی، انہیں پانی اور صاف صفائی کے سامان سے محروم رکھا جارہا تھا۔ میں سوچ رہی تھی کہ اس سے زیادہ برا کچھ نہیں ہوسکتا اور انہوں نے انٹرنیٹ بھی کٹ کر دیا۔ ہم پین کلرز اور اینٹی بائیوٹکس سے محروم تھے، مریضوں کو فوری امداد فراہم کر رہے تھے کیونکہ ہم جانتے تھے کہ وہ دوبارہ بمباری کریں گے۔ اسپتال چھوڑنے کے بعد ہم ریڈ زون چلے گئے تھے، ایسا علاقہ جہاں بہت زیادہ لڑائی ہوتی اور جہاں سے انخلاء ضروری تھا۔‘‘

یہ بھی پڑھئے: ۷؍ لاکھ فلسطینیوں کو ایک مرتبہ پھر محفوظ مقامات چھوڑنے کا حکم: یو این

انہوں نےکہا کہ ’’غزہ میں مریض داخلے کیلئے جدوجہد کر رہے ہیں اور عملے کو چھٹیاں نہیں مل رہی ہیں اور ضروری اشیاء میں تیزی سے کمی واقع ہورہی ہے۔ ناصر جنوبی غزہ کا واحد اسپتال ہے جہاں سی ٹی اسکینر ہے، بلڈ بینک، آئی سی یو اور آکسیجن جنریٹر ہے۔ میں نے دو ہڈیوں کے سرجن کے ساتھ کام کیا جو آئیڈیلس چیریٹی چلا رہے تھے۔ وہ ۲۰۰۹ء سے غزہ تک سفر کر رہے ہیں۔ ۲۰۲۱ء میں نے غزہ کے ایک سرجن کو لندن بلایا تا کہ وہ میرے ساتھ تربیت حاصل کریں۔ وہ ایک بہترین ٹرینی تھے اور فروری ۲۰۲۳ء میں غزہ کے الشفاء اسپتال میں چیف آف پلاسٹک سرجری کے طور پر خدمات انجام دینے کیلئے غزہ چلے گئے تھے۔ جنگ کی شروعات ہونے کے بعد مجھے محسوس ہوا کہ مجھے ان کی مدد کرنی چاہئے۔‘‘

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK