Updated: December 20, 2025, 5:02 PM IST
| New York
اقوامِ متحدہ کے انسانی حقوق کے سربراہ وولکر ترک نے بنگلہ دیش کے طلبہ رہنما شریف عثمان بن ہادی کے قتل پر تشویش ظاہر کرتے ہوئے شفاف اور غیر جانبدار تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔ ہادی کی موت کے بعد ڈھاکہ میں مظاہرے ہوئے اور بعض میڈیا دفاتر کو نقصان پہنچا۔ ترک نے عوام سے تحمل کی اپیل اور حکام سے آزادیِ اظہار، صحافیوں کے تحفظ اور پرامن ماحول کو یقینی بنانے پر زور دیا ہے، خصوصاً آئندہ فروری کے انتخابات کے پیشِ نظر۔
طلبہ لیڈر شریف عثمان بن ہادی۔ تصویر: آئی این این
اقوامِ متحدہ کے انسانی حقوق کے سربراہ وولکر ترک نے جمعہ کے روز بنگلہ دیش کے طلبہ رہنما شریف عثمان بن ہادی کے قتل پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔ ہادی ۲۰۲۴ء کے طلبہ احتجاج کے نمایاں رہنما تھے، جس کے نتیجے میں شیخ حسینہ کی حکومت کا خاتمہ ہوا تھا۔ ہادی کو ۱۲؍ دسمبر کو ڈھاکہ میں مسجد سے نکلتے وقت گولی مار دی گئی۔ بنگلہ دیشی اخبار پرتھم الو کے مطابق وہ بعد ازاں سنگاپور کے ایک اسپتال میں زیرِ علاج رہے، جہاں جمعرات کو زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے انتقال کر گئے۔ حکام نے فیصل کریم مسعود پر ہادی کو گولی مارنے کا الزام عائد کیا ہے، جب کہ ایک اور شخص عالمگیر شیخ کو اس کا ساتھی قرار دیا گیا ہے۔
یہ بھی پڑھئے:فلسطین ایکشن کے رضاکاروں کو ’’موت کے فوری خطرے‘‘ کا سامنا: ڈاکٹرز
جمعرات کی رات ہادی کی موت کی خبر سامنے آنے کے بعد ان کے حامی قاتلوں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کرتے ہوئے سڑکوں پر نکل آئے۔ اس دوران مظاہرین نے بنگلہ دیش کے دو بڑے اخبارات پرتھم الو اور ڈیلی اسٹار کے دفاتر میں توڑ پھوڑ کی، جس کے باعث جمعہ کو ان کے پرنٹ ایڈیشن شائع نہ ہو سکے، جبکہ آن لائن پورٹلز بھی عارضی طور پر دستیاب نہیں رہے۔ اقوامِ متحدہ کے انسانی حقوق کے سربراہ نے عوام سے پرسکون رہنے کی اپیل کرتے ہوئے کہا کہ ’’انتقام اور جوابی انتقام تقسیم کو مزید گہرا کرے گا اور سب کے حقوق کو نقصان پہنچائے گا۔‘‘ انہوں نے ایک بیان میں حکام پر زور دیا کہ ہادی کی موت کے واقعے کی فوری، غیر جانبدارانہ، مکمل اور شفاف تحقیقات کی جائیں اور ذمہ داروں کو قانون کے مطابق جوابدہ ٹھہرایا جائے۔
یہ بھی پڑھئے:بنگلہ دیش: ہندو شخص کی لنچنگ کے الزام میں سات افراد گرفتار
ڈوئچے ویلے کے مطابق، صورتحال کے پیشِ نظر فوج کو اخبارات کے دفاتر پر تعینات کیا گیا، جبکہ کئی عملے کے افراد کو فائر فائٹرز نے بحفاظت باہر نکالا۔ شریف عثمان بن ہادی طلبہ تنظیم ’’انقلاب منچہ‘‘ کے سینئر رہنما تھے۔ تنظیم نے جمعرات کی رات اور جمعہ کو ہونے والے تشدد سے خود کو الگ کرتے ہوئے الزام عائد کیا کہ بعض موقع پرست عناصر مظاہروں کو پٹری سے اتارنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ تنظیم کے مطابق یہ عناصر توڑ پھوڑ اور آتش زنی کے ذریعے ملک کو غیر مستحکم کرنا چاہتے ہیں اور بنگلہ دیش کی آزادی و خودمختاری کو خطرے میں ڈال رہے ہیں۔ ہادی کو اس اعلان کے ایک دن بعد گولی مار دی گئی جب حکام نے بتایا تھا کہ بنگلہ دیش میں ۱۲؍ فروری کو قومی انتخابات منعقد ہوں گے۔ یہ انتخابات اگست؍ ۲۰۲۴ء میں شیخ حسینہ کے استعفیٰ کے بعد ہونے والے پہلے عام انتخابات ہوں گے۔ حسینہ کئی ہفتوں تک جاری طلبہ احتجاج کے بعد ملک چھوڑ کر بھارت چلی گئی تھیں اور ۱۶؍ برس اقتدار میں رہنے کے بعد معزول ہوئیں۔
فروری کے انتخابات کے تناظر میں، وولکر ترک نے کہا کہ یہ نہایت ضروری ہے کہ ایسا ماحول یقینی بنایا جائے جس میں تمام افراد عوامی زندگی میں محفوظ اور پرامن طور پر حصہ لے سکیں اور مختلف خیالات کا آزادانہ اظہار کر سکیں۔ انہوں نے حکام پر زور دیا کہ آزادیِ اظہار، پرامن اجتماع کے حقوق کا تحفظ کیا جائے اور صحافیوں کو اس نازک مرحلے میں مکمل تحفظ فراہم کیا جائے تاکہ بدامنی میں مزید اضافہ نہ ہو۔