• Sat, 20 December, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

فلسطین ایکشن کے رضاکاروں کو ’’موت کے فوری خطرے‘‘ کا سامنا: ڈاکٹرز

Updated: December 20, 2025, 3:56 PM IST | London

برطانیہ میں فلسطین ایکشن کے چھ حراست میں لیے گئے کارکنوں کی طویل بھوک ہڑتال جان لیوا مرحلے میں داخل ہو چکی ہے۔ ۸۰۰؍ سے زائد طبی ماہرین نے حکومت کو خبردار کیا ہے کہ مناسب علاج نہ ملنے کی صورت میں قیدی جیل میں ہی دم توڑ سکتے ہیں۔ اس معاملے پر سیاسی دباؤ، عوامی مظاہروں اور پارلیمانی مطالبات میں تیزی آ گئی ہے۔

Picture: INN
تصویر: آئی این این

برطانیہ میں حراست میں لیے گئے فلسطین ایکشن کے چھ کارکنوں کو ہفتوں سے جاری بھوک ہڑتال کے باعث ’’فوری طور پر موت کے خطرے‘‘ کا سامنا ہے۔ سیکڑوں برطانوی صحت کے ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ جیل میں انہیں مناسب طبی سہولیات فراہم نہیں کی جا رہیں۔ جمعرات کو ۸۰۰؍ سے زائد ڈاکٹروں، نرسوں، معالجین اور نگہداشت کرنے والوں نے سیکرٹری جسٹس ڈیوڈ لیمی کو ایک خط لکھا، جس میں کہا گیا کہ اگر فوری مداخلت نہ کی گئی تو اس بات کا ’’حقیقی اور بڑھتا ہوا خدشہ‘‘ ہے کہ نوجوان برطانوی شہری جیل ہی میں جان کی بازی ہار سکتے ہیں، حالانکہ انہیں تاحال کسی جرم میں مجرم بھی قرار نہیں دیا گیا۔ بھوک ہڑتال کرنے والوں کی عمریں ۲۰؍ سے ۳۱؍ سال کے درمیان ہیں۔ ان میں قیصر زہرہ، امو گِب، ہیبا مریسی، تیوتا ہوکسہ اور کامران احمد شامل ہیں۔ لیوی چیرامیلو، جو ذیابیطس کے مریض ہیں، جزوی بھوک ہڑتال پر ہیں اور ہر دوسرے دن کھانے سے انکار کر رہے ہیں۔

یہ بھی پڑھئے:بنگلہ دیش: ہندو شخص کی لنچنگ کے الزام میں سات افراد گرفتار

یہ افراد برسٹل میں اسرائیلی اسلحہ ساز کمپنی ایلبٹ سسٹمز کے برطانوی ذیلی ادارے اور آکسفورڈ شائر میں رائل ایئر فورس کے اڈے میں مبینہ بریک اِن کے الزام کے تحت برطانیہ کی پانچ مختلف جیلوں میں قید ہیں۔ گروپ چوری اور پرتشدد تخریب کاری سمیت تمام الزامات کی تردید کرتا ہے۔لندن میں ایک پریس کانفرنس کے دوران ایمرجنسی فزیشن اور یونیورسٹی لیکچرر جیمز اسمتھ نے کہا:’’سادہ الفاظ میں، بھوک ہڑتال کرنے والے مر رہے ہیں۔ وہ سب ایک نہایت نازک مرحلے میں داخل ہو چکے ہیں۔‘‘ فلسطین ایکشن، جسے جولائی میں ایک دہشت گرد تنظیم قرار دے کر ممنوع کیا گیا تھا، اس فیصلے کو مسترد کرتا ہے۔ تنظیم کا کہنا ہے کہ اس کی سرگرمیوں کا مقصد اسرائیل کے مبینہ جنگی جرائم میں برطانیہ کی شراکت کو روکنا ہے۔ بھوک ہڑتال کرنے والے فوری ضمانت، منصفانہ ٹرائل، فلسطین ایکشن پر پابندی کے خاتمے اور برطانیہ میں ایلبٹ سسٹمز کی تمام تنصیبات بند کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
زہرہ اور گِب تقریباً سات ہفتوں سے مکمل طور پر کھانے سے انکار کر چکے ہیں۔ طبی ماہرین کے مطابق تین ہفتے بغیر خوراک کے گزرنے کے بعد جسم زندہ رہنے کے لیے اہم اعضا کو نقصان پہنچانا شروع کر دیتا ہے، جس سے دل، گردوں اور سانس کے نظام کو شدید خطرات لاحق ہو جاتے ہیں اور اچانک موت واقع ہو سکتی ہے۔ طبی عملے نے اپنے خط میں روزانہ دو مرتبہ طبی معائنہ، روزانہ خون کے ٹیسٹ اور چوبیس گھنٹے طبی نگرانی کا مطالبہ کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر جیل میں یہ سہولیات فراہم نہیں کی جا سکتیں تو قیدیوں کو فوری طور پر اسپتال منتقل کیا جانا چاہیے۔ قیدیوں کے اہلِ خانہ نے بھی صحت کی بگڑتی ہوئی صورتحال پر شدید تشویش ظاہر کی ہے۔ تیوتا ہوکسہ، جو اپنی بھوک ہڑتال کے ۴۰؍ ویں دن میں داخل ہو چکی ہیں، کم بلڈ پریشر، سینے میں جکڑن، سر درد اور سانس کی قلت میں مبتلا ہیں۔ ان کی ۱۷؍ سالہ بہن کے مطابق وہ شدید کمزوری اور متلی کا شکار ہیں۔

یہ بھی پڑھئے: جنوبی کوریا: صدر کا ’بالوں کا جھڑنا‘ کو قومی صحت انشورنس میں شامل کرنے کا مطالبہ

۲۰؍ سالہ قیصر زہرہ کو کم سے کم سرگرمی کے باوجود سینے میں درد، بار بار گرنے اور دل کی دھڑکن میں غیر معمولی تیزی کی شکایت ہے۔ اہلِ خانہ کے مطابق بدھ کے روز ان سے رابطہ منقطع ہو گیا تھا، جس پر تشویش بڑھ گئی۔ بعد ازاں بائیں بازو کی رکنِ پارلیمنٹ زاراسلطانہ نے تصدیق کی کہ زہرہ محفوظ ہیں اور اپنی بھوک ہڑتال جاری رکھے ہوئے ہیں۔ کامران احمد، جنہوں نے ۳۹؍  دن تک کھانا ترک کیے رکھا، ان کا وزن ۱۲؍ کلوگرام سے زیادہ کم ہو چکا ہے اور وہ روزانہ مزید وزن کھو رہے ہیں۔ ان کی بہن کے مطابق کیٹون کی سطح میں اضافہ اور دل کی دھڑکن کی سستی نے شدید خدشات پیدا کر دیے ہیں۔ کئی جیلوں کے باہر مظاہرے بھی کیے گئے ہیں، جن میں سرے کی ایچ ایم پی برونز فیلڈ جیل شامل ہے، جہاں زہرہ قید ہیں۔ اس ہفتے کے آغاز میں طبی ماہرین اور کارکن وہاں جمع ہوئے۔ فوٹیج میں دکھایا گیا کہ ایمبولینس اسپتال منتقلی کی کال کے گھنٹوں بعد پہنچی۔

یہ بھی پڑھئے: تھائی لینڈ اور کمبوڈیا کے درمیان بڑھتی کشیدگی پر تشویش

۲۰؍ ہزار سے زائد افراد نے مداخلت کے مطالبے پر دستخط کیے ہیں، جب کہ جیریمی کوربن اور جان میکڈونل سمیت ۵۰؍ سے زائد اراکینِ پارلیمنٹ نے فوری مذاکرات کا مطالبہ کیا ہے۔ گوانتانامو بے کے سابق قیدی منصور عدیفی، جنہوں نے بغیر کسی الزام کے ۱۴؍ سال سے زائد قید کاٹی، اس ہفتے اظہارِ یکجہتی کے لیے بھوک ہڑتال میں شامل ہو گئے ہیں۔ فلسطین ایکشن خود کو ایک ایسی تحریک قرار دیتا ہے جو اسرائیل کی مبینہ نسل کشی اور نسل پرستانہ پالیسیوں میں عالمی شراکت کے خاتمے کے لیے سرگرم ہے۔ یہ تنظیم۲۰۲۰ء میں قائم ہوئی اور ان کمپنیوں کے خلاف ’’تخریبی ہتھکنڈے‘‘ اختیار کرتی رہی ہے جنہیں وہ اسرائیل کی اسلحہ سازی میں معاون سمجھتی ہے۔ ۲۳؍ جون کو ہوم سیکرٹری یویٹ کوپر نے دہشت گردی ایکٹ ۲۰۰۰؍ کے تحت فلسطین ایکشن پر پابندی کے فیصلے کا اعلان کیا۔ یہ اقدام ۲۰؍ جون کے اس واقعے کے بعد سامنے آیا، جب کارکنوں نے آکسفورڈ شائر میں رائل ایئر فورس کے بڑے اڈے آر اے ایف برائز نورٹن میں توڑ پھوڑ کی اور ایندھن بھرنے والے طیاروں کو نقصان پہنچایا، جس سے لاکھوں پاؤنڈ کا نقصان ہوا۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK