Updated: October 04, 2025, 8:03 PM IST
| Lukhnow
اتر پردیش کے ضلع باغپت میں ایک غیر معمولی واقعہ نے مذہبی آزادی اور انتظامیہ کے کردار پر سوالات کھڑے کر دیئے ہیں۔ ایک ہندو نوجوان نے ’’ماتا جاگرن‘‘ کے انعقاد کی اجازت نہ ملنے کے بعد اسلام قبول کر لیا، جس کے بعد اسے پولیس نے حراست میں لے کر پوچھ گچھ شروع کر دی۔ یہ معاملہ مقامی سطح پر تناؤ اور عوامی بحث کا باعث بن گیا ہے۔
پولیس سوشیل شرما کو مسجد کے باہر سے حراست مٰں لیتے ہوئے۔ تصویر: ایکس
اتر پردیش کے باغپت ضلع کے رامالا تھانہ علاقے کے گاؤں آسارا میں سشیل شرما نامی نوجوان نے ہندو مذہبی رسم ماتا جاگرن کے انعقاد کی اجازت نہ ملنے پر اسلام قبول کر لیا۔ اس واقعے کے بعد علاقے میں مذہبی کشیدگی پیدا ہوگئی ہے اور شہری آزادی، خصوصاً مذہبی عقیدے کے حق پر بحث چھڑ گئی ہے۔ اطلاعات کے مطابق، سشیل شرما نے جب مقامی حکام سے ماتا جاگرن کیلئے اجازت طلب کی تو ان کی درخواست مسترد کر دی گئی۔ اس انکار سے دلبرداشتہ ہو کر انہوں نے اسلام قبول کرنے کا فیصلہ کیا اور اپنی تبدیلی کو حلف نامے کے ذریعے رسمی شکل دی۔ بعد ازاں وہ قریبی مسجد گئے اور وہاں جمعہ کی نماز باجماعت ادا کی۔
مسجد میں نمازیوں سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے مبینہ طور پر کہا کہ ’’انتظامیہ کے انکار سے مجھے گہرا دکھ پہنچا۔ میں عقیدے کی آزادی پر یقین رکھتا ہوں، اسی لئے میں نے اسلام قبول کیا اور آج اپنی پہلی نماز ادا کی۔‘‘ ان کے اسلام قبول کرنے کی خبر جب سوشل میڈیا پر عام ہوئی تو یہ معاملہ تیزی سے زیرِ بحث آ گیا۔ شرما نے اپنی پوسٹ میں واضح طور پر لکھا کہ ان کا یہ قدم حکام کے رویے سے مایوسی کے باعث اٹھایا گیا ہے۔ تاہم، نماز کے بعد جیسے ہی وہ مسجد سے باہر نکلے، مقامی پولیس نے انہیں حراست میں لے لیا اور پوچھ گچھ کیلئے تھانے لے گئے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ وہ اس فیصلے کے پس منظر اور اس کے ممکنہ اثرات پر تحقیقات کر رہی ہے۔
یہ بھی پڑھئے: بریلی اور اطراف میں پولیس کی دہشت، جمعہ پُرامن گزرا
ایک پولیس افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’’ہم نے سشیل شرما کو حالات کو سمجھنے اور علاقے میں امن و امان برقرار رکھنے کیلئے حراست میں لیا ہے۔‘‘ گاؤں میں اس واقعے پر عوامی رائے منقسم ہے۔ بعض شہریوں کا کہنا ہے کہ مذہب تبدیل کرنا ذاتی انتخاب ہے، جبکہ دیگر اسے ناانصافی کے خلاف ایک علامتی احتجاج قرار دے رہے ہیں۔ کلیرین کی ایک رپورٹ کے مطابق مقامی دکاندار محمد عارف نے کہا کہ ’’ہر شہری کو اپنے عقیدے کا حق ہے۔ مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ جب کوئی ہندو اسلام قبول کرتا ہے تو پولیس اس سے مجرم کی طرح پیش آتی ہے۔ یہ دوہرا معیار ہے۔‘‘ ایک اور رہائشی نے تبصرہ کیا کہ ’’انتظامیہ نے پہلے ماتا جاگرن کی اجازت نہیں دی، اب وہ مذہب کی تبدیلی پر سوال اٹھا رہے ہیں۔ دونوں فیصلے ناانصافی کے مترادف ہیں۔‘‘
واضح رہے کہ یہ واقعہ اتر پردیش میں مذہبی تقریبات اور تبدیلیٔ مذہب کے حساس پہلو کو نمایاں کرتا ہے۔ مقامی مسلمانوں کا کہنا ہے کہ ہندو رسومات کو سرکاری سطح پر اکثر آسانی سے منظوری مل جاتی ہے، جبکہ اسلام قبول کرنے یا مسلم مذہبی سرگرمیوں کو شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ آسارا گاؤں کے ایک بزرگ نے کہا کہ ’’یہ صرف ایک شخص کا معاملہ نہیں، یہ اس سوال کا امتحان ہے کہ کیا ہمارے ملک میں واقعی عقیدے کی آزادی موجود ہے یا نہیں۔‘‘ سشیل شرما کی گرفتاری نے عوامی حلقوں میں تشویش پیدا کر دی ہے کہ آیا ان کے فیصلے کو مجرمانہ انداز میں لیا جا رہا ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ ریاستی اداروں کو شہریوں کے مذہبی انتخاب کے حق کا احترام کرنا چاہئے، نہ کہ اسے تفتیش کا موضوع بنانا چاہئے۔
یہ بھی پڑھئے: حیدر آباد: ’’آئی لو مودی کہہ سکتے ہیں، آئی لو محمدؐ نہیں ‘‘: اویسی کا طنز
پولیس کی جانب سے تفتیش جاری ہے جبکہ گاؤں اور ریاست بھر میں یہ معاملہ مذہبی آزادی کے توازن اور مساوات پر ایک اہم بحث کو جنم دے چکا ہے۔ حکام کی خاموشی نے مقامی مسلمانوں میں مزید بےچینی پیدا کر دی ہے، جو اسے مذہبی امتیاز کی ایک اور مثال کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔